
راہل گاندھی، تیجسوی یادو اور مکیش سہنی / آئی اے این ایس
بہار اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات میں پہلے مرحلے کی پولنگ ہو چکی ہے۔ دوسرے مرحلے کی پولنگ گیارہ نومبر کو اور ووٹوں کی گنتی 14 نومبر کو ہوگی۔ پہلے مرحلے کی پولنگ میں ریکارڈ ووٹ ڈالے گئے جس کا تجزیہ الگ الگ انداز میں کیا جا رہا ہے۔ عام طور پر اسے ایک مسلمہ روایت سمجھا جاتا ہے کہ اگر کہیں بہت زیادہ ووٹ پڑے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رائے دہندگان موجودہ حکومت سے ناراض ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈال کر اپنی خفگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ اس حکومت کو بدلنا چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ ووٹ ڈالنے جوق در جوق پہنچے ہیں تاکہ کسی بھی طرح اس حکومت کو گرا دوسری حکومت قائم کی جاسکے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا ایک چھوٹا سا طبقہ ایسا بھی ہے جو اس خیال سے متفق نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالنے اس لیے نکل رہے ہیں تاکہ وہ اس حکومت کو بچا سکیں اور کوئی دوسری حکومت نہ بن جائے۔
Published: undefined
اس الیکشن پر نہ صرف ہندوستان کی بلکہ پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ بہار کے نتائج نہ صرف اس ریاست کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے انتہائی فیصلہ کن ثابت ہوں گے اور ملکی سیاست پر ان کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ جیسا کہ بار بار کہا گیا ہے کہ اگر این ڈی اے کی حکومت بنی تو بی جے پی کسی بھی قیمت پر نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ نہیں بننے دے گی۔ وہ اپنے کسی سیاست داں کو اس منصب پر بٹھائے گی۔ اس بات کو نتیش کمار بھی سمجھ رہے ہیں اور اسی لیے وہ صرف اپنی پارٹی کے امیدواروں کے حق میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں بی جے پی امیدواروں کے حق میں نہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ ان کی پارٹی کی زیادہ سے زیادہ سیٹیں آئیں تاکہ بی جے پی انھیں وزیر اعلیٰ بنائے رکھنے پر مجبور ہو جائے۔
لیکن اگر خدا نخواستہ بی جے پی کے امیدوار زیادہ کامیاب ہو گئے اور وہ حکومت سازی کی پوزیشن میں آگئی تو پھر نہ صرف بہار کی بلکہ پورے ملک کی سیاست بدل جائے گی۔ اگر نتیش کمار وزیر اعلیٰ بنتے ہیں تو وہ اپنی پسند کی حکومت چلائیں گے اور بی جے پی کے ایجنڈے کو بہت زیادہ لاگو کرنے سے گریز کریں گے۔ نتیش کمار کا خیال ہے کہ اگر ان کی حکومت میں بی جے پی اپنے ایجنڈے کو چلانے میں کامیاب ہو گئی تو ان کی سیاست ختم ہو جائے گی۔مسلمان بھی ان سے دور ہو جائیں گے اور وہ برادریاں اور طبقات بھی جو جنتا دل یو کو اس کی پالیسیوں کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔
Published: undefined
مبصرین کا خیال ہے کہ بہار کے انتخابی نتائج کے اثرات نہ صرف فوری طور پر پڑیں گے بلکہ وہ کئی دہائیوں تک باقی رہیں گے۔ بہار میں بی جے پی کی حکومت کا بننا ملکی سیاست پر اس کی گرفت کا اور مضبوط ہونا سمجھا جا رہا ہے۔ یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے اور کانگریس خاص طور پر کہتی ہے کہ ملک میں جمہوری اقدار کمزور ہوئی ہیں اور حکومت نے آئینی اداروں کو بڑی حد تک اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ لہٰذا اگر بہار پر بھی بی جے پی کا قبضہ ہو گیا تو وہ کنٹرول اور مضبوط ہو جائے گا۔
اپوزیشن کو بھی اس کا احساس ہے۔ اسی لیے جمہوری اقدار میں یقین رکھنے والی یعنی کانگریس، آر جے ڈی، سی پی آئی ایم ایل اور دیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیوں نے ایک اتحاد قائم کیا ہے۔ جس کی پوری کوشش ہے کہ ا س بار این ڈی اے کے بجائے مہا گٹھ بندھن کی حکومت بنے۔ اسے اس بات کا بھی احساس ہے کہ جمہوری اقدار کو بچانے کی ذمہ داری سب سے زیادہ اسی کی ہے۔ اس سلسلے میں سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ وہ ووٹ چوری کا مسلسل انکشاف کر رہے ہیں تاکہ عوام اس بات کو سمجھیں کہ بہار کو غلط ہاتھوں میں جانے سے بچانا کتنا ضروری ہے۔ اسی لیے پہلے انھوں نے ووٹر ادھیکار یاترا نکالی اور اب جگہ جگہ انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
Published: undefined
اگر گٹھ بندھن کی حکومت بنتی ہے تو سیکولرزم کو بھی مضبوطی حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ اقلیتوں، دبے کچلے اور حاشیے پر پہنچ جانے والے طبقات کی امیدیں بھی بر آئیں گی۔ اسی لیے گٹھ بندھن کے لیڈر عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ریاست کو فرقہ پرستی کے دلدل میں جانے سے بچائیں ورنہ اس ریاست میں بھی وہی کچھ ہوگا جو بی جے پی اقتدار والی دیگر ریاستوں میں ہو رہا ہے۔ نہ صرف ہندوستان کے غیر جانبدار اور آزاد صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں کے آزاد صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ بہار کے انتخابی نتائج ملک کا مستقبل طے کریں گے۔
اس وقت بہار میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔ وہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں سے سب سے زیادہ لوگ دوسری ریاستوں میں روزگار اور کام کی تلاش میں جاتے ہیں۔ گٹھ بندھن نے نوجوانوں کو روزگار دے کر بے روزگاری ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تیجسوی یادو نے ہر گھر سے ایک ایک شخص کو نوکری دینے کا جو اعلان کیا ہے وہ نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کر رہا ہے۔ انھیں ان کا یہ اعلان بہت پسند آرہا ہے۔ جبکہ راہل گاندھی کی جانب سے ووٹنگ میں بدعنوانی کو اجاگر کرنے کا سلسلہ اسی لیے جاری ہے تاکہ انتخابی عمل کو شفاف بنایا جا سکے۔
Published: undefined
ایک وقت تھا جب ہندوستان کے انتخابی عمل کی شفافیت کو پوری دنیا میں سراہا جاتا تھا۔ ہزاروں غیر ملکی صحافی اور مشاہدین انتخابات کے مواقع پر ہندوستان آتے تھے اور یہاں کے انتخابی عمل کا جائزہ لیتے تھے۔ وہ اپنی رپورٹوں میں اس عمل کی ستائش کرتے تھے۔ اس عمل میں برتی جانے والی دیانت داری کی وجہ سے اس کو پوری دنیا میں قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن اب وہ بات نہیں رہ گئی۔ اب تو غیر ملکی میڈیا بھی بدعنوانیوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابی شفافیت بحال ہو تاکہ عوام اپنی پسند کی حکومت چن سکیں۔
اسی لیے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ بہار کے انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ ہے، نہ صرف ریاستی نقطہ نظر سے بلکہ ملکی نقطہ نظر سے بھی ۔ وہاں کے رائے دہندگان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عمل سے جمہوریت کو بھی استحکام بخشیں اور انتخابی عمل کی شفافیت کو بھی یقینی بنائیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ چونکہ بہار کے عوام سیاسی طور پر بہت زیادہ باشعور ہیں اس لیے ان باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے وہ اپنا فریضہ بخوبی انجام دیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined