فکر و خیالات

امریکی پابندیاں اسرائیل کو بچانے کا حربہ

دو تہائی رکن ممالک نے بین الاقوامی فوجداری عدالت پر امریکی پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی کارروائیاں عالمی قانون کی حکمرانی کو متاثر کرتی ہیں

ڈونلڈ ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ 

بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی ) یا عالمی عدالت کے 79 رکن ممالک نے آئی سی سی پر امریکہ کی پابندیوں کی مذمت کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہ فیصلہ ’سنگین جرائم کے لئے معافی کے خطرے ‘کو بڑھا نے اور بین الاقوامی قانون کو کمزور کرنے والا عمل ہے۔ 8 فروری کو ایک بیان میں، ان ممالک کے گروپ نے – جو کہ عدالت کے ارکان کا تقریباً دو تہائی حصہ ہے – آئی سی سی کی حمایت کی اور کہا کہ عدالت کی جانب سے اسرائیل کی تحقیقات کرنے کی پاداش میں امریکی پابندیاں بین الاقوامی قانون کو کمزور کریں گی ۔ سلووینیا، لکسمبرگ، میکسیکو، سیرا لیون اور وانواتو کی قیادت میں جاری بیان میں کہا گیا کہ ایسی کارروائیاں سنگین جرائم کے لئے معافی کے خطرے کو بڑھاتی ہیں اور بین الاقوامی قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہیں، جو عالمی نظم و امن کے قیام کے لئے انتہائی اہم ہے۔ اس گروپ میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا، برازیل اور بنگلہ دیش سمیت درجنوں دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔

Published: undefined

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 4 فروری کو آئی سی سی کے افسران، ملازمین اور ان کے اہل خانہ کے خلاف اثاثوں کی منجمدی اور سفری پابندیاں عائد کرنے کا حکم دیا ۔ جس کے تحت ان لوگوں کے خلاف بھی پابندیاں عائد کی گئیں جو عدالت کی تحقیقات میں معاونت کرتے تھے۔ بیان میں انتباہ کیا گیا کہ پابندیاں حساس معلومات کی رازداری اور ان افراد کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں جن میں متاثرین، گواہ اور عدالت کے افسران شامل ہیں، جن میں سے بہت سے ہمارے شہری ہیں۔ ہم آئی سی سی کی خودمختاری، دیانتداری اور غیر جانبداری کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔

Published: undefined

حالانکہ امریکہ نے ہمیشہ خود کو ایک ایسے بین الاقوامی نظام کے ضامن کے طور پر پیش کیا ہے جو انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دیتا ہے، لیکن اس نے اکثر بین الاقوامی اداروں کی ان کوششوں پر حملہ کیا ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مبینہ استحصال کی تحقیقات کرتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کو امید ہے کہ پابندیاں عائد کرنے والے اس حکم سے امریکہ اور اس کے قریبی اتحادی اسرائیل کو نشانہ بنانے والے ’ناجائز اور بے بنیاد اقدامات‘ کے خلاف ’ٹھوس اور اہم نتائج‘ حاصل ہوں گے۔ ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے آئی سی سی پر پابندیاں عائد کی ہیں، ان کے ڈیموکریٹک پیش رو جو بائیڈن نے بھی عدالت کو اسرائیل کی تحقیقات کرنے پر سزا دینے کے لئے پابندیوں کے استعمال پر غور کیا تھا۔

Published: undefined

گزشتہ سال نومبر میں، آئی سی سی نے اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں مبینہ جنگی جرائم کے لئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے، جہاں اسرائیل نے ایک مہم چلائی جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے، پورے محلے تباہ ہو گئے، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور انسانی امداد کو وسیع پیمانے پر روک دیا تھا۔ رپورٹوں کے مطابق، کم از کم 61 ہزار فلسطینی اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، یہ تعداد بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ ریسکیو کارکن ملبے میں دبی لاشوں کی تلاش کر رہے ہیں۔

Published: undefined

اسرائیل نے ہمیشہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے لیکن اسے کبھی جوابدہ نہیں ٹھرایا گیا، اس صورتحال پر کینٹ یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کی لیکچرر شاہد حموری نے 'الجزیرہ' میں لکھا ہے کہ اسرائیل کو حاصل معافی نے ہمیں ایک ایسے نقطے پر پہنچا دیا ہے جہاں موجودہ عالمی نظام اب مزید قابل عمل نہیں رہا۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے کارکنوں کو قتل کیا، یو این آر ڈبلیو اے کو بند کیا، اقوام متحدہ کے نمائندوں کو داخلے سے روکا اور بار بار اقوام متحدہ اور اس کے حکام کی توہین کی لیکن اسرائیل کو دہائیوں سے غیر معمولی استثنیٰ حاصل ہے۔ اسرائیلی حکومتوں اور ان کے اتحادیوں نے وہ تمام وسائل استعمال کیے ہیں جن سے آئی سی سی پر اسرائیلی جرائم کی تحقیقات نہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جا سکے– جسمانی تشدد کی براہ راست دھمکیوں سے لے کر پابندیوں اور بدنامی تک ۔ عدالت پر حملے اس وقت اور بھی شدت اختیار کر گئے جب اس نے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔

Published: undefined

آئی سی سی پر پابندیاں، پیرس موسمیاتی معاہدے اور عالمی صحت تنظیم سے امریکہ کا انخلا امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے وہ فیصلے ہیں جو عالمی کثیر الجہتی نظام پر ایک براہ راست حملہ ہیں۔ 4 فروری کو، امریکی صدر نے عالمی قانون کی مکمل بے حرمتی کرتے ہوئے غزہ پر ’قبضہ‘ کرنے اور ’اسے اپنا بنانے‘ کا ارادہ ظاہر کیا۔ یہ تمام واقعات اس سوال کو جنم دیتے ہیں کہ آیا اقوام متحدہ کے زیر قیادت موجودہ عالمی نظام بچایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اگرچہ 1945 میں آنے والی نسلوں کو جنگ کے عذاب سے بچانے کے لئے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا، مگر اقوام متحدہ طویل عرصے سے تنازعات کو روکنے اور ان سے بچنے میں ناکام رہی ہے۔ جیسا کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلی اور عسکریت پسندی کے تیزی سے بڑھنے کے خطرے کا سامنا ہے، یہ واضح ہے کہ ہمیں ایک ایسے نئے عالمی قانونی نظام کی ضرورت ہے جو طاقت کے بجائے لوگوں کو انصاف کی بنیاد پر متحد کرے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined