علامتی تصویر / اے آئی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 اپریل کو تمام درآمدات پر من مانا ٹیرف لگا کر نہ صرف عالمی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا۔ اگرچہ 9 اپریل کو ڈرامائی انداز میں بیشتر ممالک کو 90 دن کی مہلت دے دی گئی لیکن چین کو اس فہرست سے باہر رکھتے ہوئے اس پر عائد ٹیرف میں 125 فیصد تک کا اضافہ کر دیا گیا۔
چند شراکت دار ممالک نے فوری طور پر امریکی رویے کو ایڈجسٹ کرنے کے اقدامات کیے، جو ایک حد تک تسلی بخش بھی تھے لیکن چین کے معاملے میں صورتحال خاصی مختلف ہے اور ان دونوں ممالک کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ دنیا پر دور رس اثرات ڈالنے والا ہے۔
Published: undefined
ٹرمپ اور ان کے معاشی مشیر ایک ایسا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں جس میں نقصان امریکہ کا ہی مقدر بنے گا۔ اس پالیسی سے نہ صرف امریکہ کا اقتصادی مستقبل غیر محفوظ ہو جائے گا بلکہ وہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار بھی ہوگا، جبکہ چین کے ابھار کو تیزی سے فروغ ملے گا اور دنیا بھر میں امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی فضا بنے گی۔
ٹرمپ کی اس پالیسی کا نقصان اندرونِ ملک بھی نمایاں ہونا شروع ہو چکا ہے۔ ٹیرف وہ محصولات ہیں جو دوسرے ممالک سے درآمد کی گئی اشیاء پر عائد کیے جاتے ہیں۔ ماہرین معیشت ان کو ’چھپے ہوئے ٹیکس‘ قرار دے رہے ہیں، جن کی وجہ سے روزمرہ کی اشیاء سے لے کر قیمتی الیکٹرانکس تک کی قیمتیں بڑھنے لگی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایپل کا آئی فون 2300 ڈالر مہنگا ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
مہنگائی پہلے ہی بلند سطح پر ہے، ایسے میں یہ ٹیرف اوسط امریکی خاندان کے سالانہ اخراجات میں ہزاروں ڈالر کا اضافہ کر دیں گے، جس سے ان کی قوتِ خرید اور معیارِ زندگی متاثر ہوگا۔
امریکی صنعتیں، خصوصاً مینوفیکچرنگ سیکٹر، شدید بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ اسٹیلنٹیس جیسی بڑی آٹو کمپنیوں نے پیداواری لاگت بڑھنے اور سپلائی چین میں ممکنہ رکاوٹوں کی وجہ سے پہلے ہی چھٹنی اور پلانٹ بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ سستے درآمدی پرزوں پر انحصار کرنے والے چھوٹے کاروبار وجود کے بحران سے دوچار ہو چکے ہیں، کیونکہ ان کے منافع میں شدید کمی آئی ہے اور ملازمتیں ختم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
Published: undefined
المیہ یہ ہے کہ جن مزدوروں کو تحفظ دینے کے لیے یہ پالیسی اپنائی گئی، وہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ریٹیل سیکٹر بھی قیمتوں میں اضافے اور سامان کی قلت سے پریشان ہے، جس کی وجہ سے ترسیل میں تاخیر اور منافع میں کمی ہو رہی ہے۔ اس کے اثرات سپلائی چین کے مختلف حصوں تک پھیل رہے ہیں اور کاروباری ادارے دباؤ میں ہیں۔
عالمی سطح پر امریکہ کی جارحانہ تحفظ پسندانہ پالیسیوں کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ 'بائیکاٹ امریکہ' کی مہم تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ میں ٹرمپ کی ذاتی جائیدادیں جیسے گولف کورس احتجاج اور بکنگ منسوخی کا شکار ہیں۔
کینیڈا میں صارفین ’میپل اسکین‘ جیسی ایپس کے ذریعے امریکی مصنوعات سے گریز کر رہے ہیں، جبکہ ڈنمارک کا سب سے بڑا ریٹیلر یورپی مصنوعات پر علیحدہ لیبل لگا رہا ہے تاکہ صارفین امریکی درآمدات سے بچ سکیں۔
Published: undefined
یہ بائیکاٹ امریکی کمپنیوں کی ساکھ اور کاروبار کو متاثر کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ٹیرف واپس بھی لے لیے جائیں، تو بھی اعتماد کی یہ کمی فوری طور پر بحال نہیں ہو سکے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی اسٹریمنگ سروسز، سروس پرووائیڈرز اور فرنچائزز کو بھی مندی کا سامنا ہے، جس سے امریکہ کی عالمی برانڈ ساکھ کو دھچکا لگ رہا ہے۔
مالیاتی منڈیوں نے بھی اس ’ٹیرف وار‘ پر سخت ردعمل دیا ہے۔ ڈاؤ جونز میں تقریباً 6 فیصد کی بڑی کمی آئی، جو 2020 کے بعد ایک دن میں سب سے زیادہ تھی۔ ایشیائی منڈیوں میں اسے ’خونی دن‘ کہا گیا۔
ہندوستانی بازار کا سینسیکس ایک وقت میں 4000 پوائنٹس گرا، جس سے 14 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ شنگھائی کمپوزٹ اور ہانگ کانگ کا ہینگ سینگ بھی بری طرح گرے۔ ویتنام اور بنگلہ دیش جیسی برآمدی معیشتیں بھی سست روی کا شکار ہو رہی ہیں۔
Published: undefined
سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹرمپ کے ٹیرف اصل میں چین کو مضبوط کر رہے ہیں۔ چین نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور وہ آزاد تجارت کی حمایت میں سامنے آیا ہے۔ امریکی عدم استحکام کے برعکس، وہ خود کو ایک قابلِ اعتماد متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
امریکہ کے روایتی اتحادی بھی چین کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں، جو خطے میں اقتصادی شراکت داری کے معاہدے کر رہا ہے اور عالمی سطح پر اپنے تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ تحفظ پسندی سے کبھی خوشحالی نہیں آئی۔ 1930 کا بدنام زمانہ ’سموٹ ہالی ٹیرف ایکٹ‘ بھی عالمی کساد بازاری کو بڑھاوا دینے والا ثابت ہوا۔ اس وقت بھی کوئی فاتح نہیں نکلا تھا، سبھی ہارے تھے۔ امریکہ کی حالیہ ترقی، جدت، کھلی منڈیوں اور عالمی تجارتی شراکت داریوں پر مبنی تھی۔ ٹرمپ کی پالیسیوں نے ان بنیادوں کو کمزور کیا ہے۔
یہ یکطرفہ اقدامات ان تمام سفارتی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں جو برسوں سے غیر منصفانہ تجارتی رویوں کو ختم کرنے کے لیے کی جا رہی تھیں۔ یہ تحفظ پسندانہ جوا امریکہ کو تنہائی کی طرف دھکیلتا ہے، چین کو فائدہ پہنچاتا ہے اور امریکہ کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر یہ پالیسیاں واپس نہ لی گئیں تو امریکہ کا عالمی اثر و رسوخ کم ہوتا چلا جائے گا، جبکہ چین کا اثر بڑھتا چلا جائے گا۔ دنیا دم سادھے یہ منظر دیکھ رہی ہے، کیونکہ یہ صرف اقتصادی نہیں بلکہ عالمی طاقت کے توازن کا بھی اہم موڑ ہے۔
(مضمون نگار اشوک سوین سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں امن و تنازع کے مطالعے کے پروفیسر ہیں)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined