فکر و خیالات

کیا ٹرمپ امریکہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں؟

ڈونالڈ ٹرمپ اپنی صدارت کے آخری دور میں وعدے نبھانے کی کوشش میں ہیں۔ ان کے فیصلے، بیانات اور اندازِ حکمرانی عالمی سطح پر تنقید کا باعث بنے مگر وہ بدستور اپنے مؤقف پر قائم ہیں

<div class="paragraphs"><p>ڈونالڈ ٹرمپ / Getty Images</p></div>

ڈونالڈ ٹرمپ / Getty Images

 
Anadolu

ڈونالڈ ٹرمپ، جو کہ اب امریکہ کے صدر کی حیثیت سے اپنے دوسرے اور آخری دور میں ہیں، اپنی انتخابی مہم میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش میں نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کو ایک بار پھر عظیم بنائیں گے اور آج بھی وہ اسی نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ان کے فیصلے، اندازِ حکمرانی اور بیانات بلاشبہ کئی حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنی راہ پر ثابت قدم ہیں۔ ممکن ہے کہ یہی بات ان کے مخالفین کو کھلتی ہو اور اسی لیے وہ ہر فیصلے میں خامیاں نکالتے ہیں۔

چونکہ امریکی آئین کے مطابق کوئی بھی فرد دو بار سے زیادہ صدر نہیں بن سکتا، اس لیے ٹرمپ اب تیسری بار اس عہدے کے امیدوار نہیں بن سکتے۔ اس حقیقت نے ان کے طرزِ حکمرانی پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔ ان کے فیصلوں میں سیاسی مصلحت یا آنے والے انتخابات کی فکر کم دکھائی دیتی ہے اور یوں وہ وہی کچھ کرتے نظر آتے ہیں جو ان کے خیال میں امریکہ کے مفاد میں ہے، چاہے وہ فیصلے کتنے ہی متنازع کیوں نہ ہوں۔

Published: undefined

ٹرمپ کا سب سے بڑا اور دلکش نعرہ ’Make America Great Again‘ تھا۔ یہ ایک ایسا نعرہ ہے جو محض الفاظ نہیں بلکہ ایک جذباتی پیغام بن چکا ہے، جو عام امریکیوں کے دلوں کو چھو گیا۔ لوگ یہ سوچے بغیر اس نعرے کے پیچھے چل پڑے کہ اسے کہنے والا کون ہے یا اس کے مقاصد کیا ہیں۔ ٹرمپ کے بیانات اور پالیسیوں سے اختلاف اپنی جگہ لیکن یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ وہ جو سوچتے ہیں وہی کہتے ہیں اور اسی وجہ سے کئی حلقے ان سے ناراض بھی ہیں۔

ان کے اس نظریے کے تحت، انہوں نے امریکہ کی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے کئی جارحانہ اقدامات کیے، جن میں ٹیرف (درآمدی محصولات) میں اضافہ شامل ہے۔ ان فیصلوں سے نہ صرف چین جیسے ممالک بلکہ قریبی اتحادی بھی ناراض ہوئے۔ تاہم، ٹرمپ کا ماننا ہے کہ عالمی طاقت بننے کے لیے اقتصادی خودمختاری اور مضبوطی ناگزیر ہے۔ اسی سوچ کے تحت وہ امریکہ کے تجارتی خسارے کو کم کرنے اور مقامی صنعتوں کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

Published: undefined

ایک اور اہم پہلو ان کی اسرائیل سے وابستگی ہے۔ ٹرمپ نے کبھی بھی امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کو چھپانے یا نرم لہجے میں بیان کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی، چاہے وہ غزہ میں حماس کے خلاف بیانات ہوں، شام کے خلاف اسرائیل کی مدد یا ایران کے ساتھ کشیدگی کے دوران اسرائیل کا ساتھ دینا، ٹرمپ کا رویہ واضح اور دو ٹوک رہا۔ ان اقدامات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران جن حلقوں سے حمایت حاصل کی، ان کے مفادات کو ترجیح دی، چاہے وہ امریکہ کے اندر رہنے والے یہودی ہوں یا اسرائیل جیسا اتحادی ملک۔

تاہم، ٹرمپ صرف طاقت کا کھیل نہیں کھیل رہے۔ وہ بارہا عالمی امن کے قیام کی بات بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کے بعض بیانات اور فیصلے اس بات کی دلیل بنے کہ وہ نوبل امن انعام جیسے اعزاز کے متمنی ہیں۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ ان کی جھڑپ، جو میڈیا میں بھی زیر بحث رہی، اسی خواہش کی جھلک دکھاتی ہے۔ جب روس نے ان کی بات نہیں مانی تو ٹرمپ نے اس کے خلاف بولنے میں بھی تامل نہیں کیا۔

Published: undefined

اس سب کے دوران ایک سچائی یہ بھی ہے کہ آج ٹرمپ کا چرچا صرف امریکہ میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے۔ مگر یہ ذکر کسی خوشگوار یا تعمیری حوالے سے نہیں ہو رہا بلکہ ان کے بعض فیصلوں کا منفی ہونا ہے۔ اگر زیلنسکی جیسے سربراہانِ مملکت امریکی صدر کے سامنے بولنے کی ہمت کر سکتے ہیں، تو ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں کئی اور ممالک بھی اسی راہ پر چلیں۔ یہ وہی امریکہ ہے جس کا صدر کبھی دنیا بھر میں سب سے بااثر اور سب سے زیادہ قابلِ احترام شخصیت سمجھا جاتا تھا۔

ٹرمپ کے اٹھائے گئے اقدامات جیسے کہ امیگریشن پالیسی میں سختی، غیر ملکی تارکینِ وطن کے خلاف کارروائیاں اور تجارتی جنگیں، صرف امریکہ کے داخلی معاملات تک محدود نہیں رہیں بلکہ انہوں نے عالمی سطح پر بھی امریکہ کے اثر و رسوخ کو متزلزل کیا۔ اگرچہ ٹرمپ کو دوبارہ صدر نہیں بننا مگر ان کے فیصلوں کے اثرات ان کی سیاسی جماعت پر دیرپا ہو سکتے ہیں۔ ان کی پالیسیوں سے ریپبلکن پارٹی کو داخلی اور امریکہ کو عالمی سطح پر سیاسی نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے اور وہ ’عظیم امریکہ‘ کا خواب جو ٹرمپ نے دکھایا تھا، کہیں خود امریکہ کی تنہائی اور تنقید کا باعث نہ بن جائے۔کسی اعزاز کو حاصل کرنے کے لئے اچھا کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ سب کی منفی تقید کا نشانہ بن جانا۔

Published: undefined

یوں، ٹرمپ کی صدارت ایک ایسے دور کی نمائندگی کر رہی ہے جو جارحانہ قومی مفادات، دوٹوک بیانات اور داخلی ترجیحات پر مبنی ہے۔ وہ بلا خوف اپنے وعدوں پر قائم ہیں لیکن ان کا اندازِ حکمرانی وہ دائرہ کھینچ رہا ہے جہاں امریکہ کی عظمت ایک نئے مفہوم میں دیکھی جا رہی ہے، تنقید، مخالفت اور ایک بدلتی ہوئی عالمی قیادت کے تناظر میں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined