قریب 35 سال پہلے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنڈت نرائن دت تیواری نے اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا قانون بنایا تھا۔ اسی ایوان میں موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اردو پڑھا کر مولوی اور کٹھ ملا بنانے کا نہایت مضحکہ خیز، قابل اعتراض اور فرقہ وارانہ بیان دیتے ہیں۔ جس ریاست کے وزیر اعلیٰ پنڈت کملاپتی ترپاٹھی نے تمام اعتراضات اور رکاوٹوں کو درکنار کرتے ہوئے ہر حال میں اردو اکادمی تشکیل کرنے کا فرمان جاری کیا ہو، جس ریاست میں ہیم وتی نندن بہوگنا اور ملائم سنگھ یادو نے اردو کی تعلیم کے فروغ کے لیے اردو اساتذہ کی خصوصی بھرتیاں کی ہوں، ہر محکمہ میں اردو مترجم مقرر کیے ہوں اور ایک اور وزیر اعلیٰ وشو ناتھ پرتاپ سنگھ نے سرکاری محکموں اور روڈویز کی بسوں میں اردو کے بورڈ اور تختیاں لگانے کا فرمان جاری کیا ہو تاکہ بقول ان کے، اردو نمایاں ہو اور سڑکوں پر چلتی پھرتی دکھائی دے،
وزیر اعلی مایاوتی نے اپنے مینٹر کانشی رام کے نام پر جو اردو میں ہی کام کرتے تھے ان کے نام پر اردو عربی فارسی یونیورسٹی قائم کی تھی جس کے پہلے وائس چانسلر سینئر آئی اے ایس افسر انیس انصاری کو بنایا گیا تھا انہوں نے اس یونیورسٹی کے لئے رہنما اصول تیار کئے تھے ان میں دیگر باتوں کے علاوہ تدریسی اور غیر تدریسی عملہ کا اردو علم لازمی بنایا گیا تھا موجودہ گورنر جینتی بین پٹیل نے اس یونیورسٹی کی چانسلر کے طور پر آتے ہی سب سے پہلے نام سے لفظ اردو عربی فارسی ہٹوا کر اس کا نام لینگویج یونیورسٹی کر دیا اور ایک غیر اردو داں کو اس کا وی سی مقرر کر دیا جہاں اردو کے فروغ کے لئے سرکاروں نے اتنے کام کئے ہوں وہاں کا موجودہ وزیر اعلی اردو کے سلسلہ میں ایسی باتیں کہہ رہا ہے کہ اردو پڑھا کے مولوی اور کٹھ ملا بنایا جائے گا۔
Published: undefined
یوگی آدتیہ ناتھ کا تعلق اتر پردیش کے ضلع گورکھپور سے ہے، جس نے اردو کے ممتاز شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری جیسی شخصیت کو جنم دیا۔ تو کیا فراق صاحب کٹھ ملا تھے؟ اسی شہر کے نارمل اسکول میں منشی پریم چند سرکاری مدرس تھے، تو کیا وہ بھی مولوی اور کٹھ ملا تھے؟ ایسے ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں غیر مسلموں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جنہوں نے اردو کی زلفوں کو سنوارا اور اردو دشمنی کے اس ماحول میں آج بھی ہزاروں غیر مسلم اردو میں لکھتے، پڑھتے، بولتے اور شاعری کرتے ہیں۔ فرقہ پرستی کی سوچ نے یوگی جی کے دماغ کو ایسا بند کر دیا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی یہ نہیں جانتے کہ اردو اسی ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہے۔
پنڈت نرائن دت تیواری نے جب اردو کو دوسری سرکاری زبان بنایا تو ہندی کی ایک تنظیم نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی تھی جو خارج ہو گئی اور سپریم کورٹ نے اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کے قانون پر مہر لگا دی تھی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج، جو بعد میں سپریم کورٹ کے بھی جج ہو گئے تھے، جسٹس کاٹجو نے سہ لسانی فارمولے کے تحت آٹھویں درجے تک اردو کی لازمی تعلیم کا فیصلہ دیا تھا لیکن اس پر کبھی عمل نہیں ہوا۔
Published: undefined
شکایت وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے نہیں ہے، ان کی سیاست کی کلید ہی مسلم دشمنی ہے۔ آٹھ برسوں کی اپنی حکومت میں انہوں نے ہر ممکن طریقے سے مسلمانوں کو برباد کرنے کی کوشش کی ہے، خواہ وہ فرضی پولیس مڈبھیڑ ہو یا مکانوں اور مسجدوں کو بلڈوزر سے زمین دوز کرنا ہو۔ وہ جب بھی بولتے ہیں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ یہی ان کا یو ایس پی ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ مودی کے بعد وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے سرد جنگ بھی چل رہی ہے۔
شکایت حزب اختلاف خاص کر سماج وادی پارٹی کے ایک سو سے زیادہ ممبران اسمبلی، خاص کر 36 مسلم ممبران اسمبلی سے ہے جو صرف اور صرف مسلمانوں کے ووٹوں پر جیت کر آئے ہیں اور اس وقت ان کے منہ میں دہی جما ہوا تھا جب وزیر اعلیٰ بھرے ایوان میں 'کٹھ ملا' جیسے الفاظ استعمال کر رہے تھے اور اسپیکر سمیت حکمران جماعت کے ممبران ہنس رہے تھے۔ دوسرے دن جب ممبر اسمبلی نفیس احمد، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین کے صدر بھی رہ چکے ہیں، پوری تیاری سے اردو پر بولنے کے لیے کھڑے ہوئے تو اسپیکر نے انہیں بولنے نہیں دیا اور ان کے بجائے حزب اختلاف کے لیڈر ماتا پرساد پانڈے کو بولنے کو کہا، جنہوں نے بہت پھسپھسے انداز میں یوگی کے اردو مخالف بیان کی مخالفت کر کے اپنا فرض پورا کر دیا۔ کوئی احتجاج نہیں ہوا، بات بات پر ایوان کے ویل میں جانے والوں نے اس کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور نہ ہی کارروائی کا بائیکاٹ کیا، جس سے وزیر اعلیٰ کو مجبور ہو کر کوئی نہ کوئی صفائی دینی ہی پڑتی۔
یاد کیجیے کانگریس کے پارلیمنٹ میں کل 44 ارکان تھے، وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بیان میں سابق وزیر اعظم انجہانی ڈاکٹر منموہن سنگھ، فوج کے سابق سربراہ جنرل کپور وغیرہ پر پاکستان سے مل کر ان کے قتل کی سازش کا الزام لگایا تھا۔ کانگریس نے اس کا سخت نوٹس لیا اور راجیہ سبھا میں مودی کو اپنے ایک وزیر کے توسط سے معافی مانگنی پڑی تھی۔ یہی نہیں، ان کے ایک دوسرے بیان کو ایوان کی کارروائی سے خارج بھی کرنے پر کانگریس نے مجبور کر دیا تھا۔ اگر سماج وادی پارٹی کے سبھی ممبران زوردار احتجاج کرتے تو یوگی کو اپنا بیان واپس لینا پڑتا۔ 36 مسلم ممبران کی غیرت اور حمیت بھی نہیں جاگی اور وہ مردوں کی طرح پوری قوم کی یہ توہین شیر مادر کی طرح ہضم کر گئے۔ کسی نے یوگی کو یہ بھی یاد نہیں دلایا کہ جس اردو کو لے کر وہ ایسے نازیبا بیان دے رہے ہیں وہ قانونی طور پر اسی ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہے۔
Published: undefined
بھلے ہی اپوزیشن، خاص کر مسلم ممبران اسمبلی، ایوان میں مجرمانہ طور پر خاموش رہے لیکن یوگی کے اس نازیبا فرقہ وارانہ بیان کی ہر طرف مذمت ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر تو جیسے مذمتی بیانات کی باڑھ آ گئی ہو۔ ایسے ہی ایک بیان میں یوگی کو یاد دلایا گیا کہ ان کے چار منٹ اور اٹھائیس سیکنڈ کے اس بیان میں نو الفاظ اردو کے تھے، یعنی وہ اردو کی برائی بھی اردو میں ہی کر رہے تھے۔ ایک صارف نے کہا کہ بھلے ہی آپ نے اردو نہ پڑھی ہو لیکن اگر آپ کے دادا پر دادا تعلیم یافتہ تھے تو ان کو اردو میڈیم میں ہی تعلیم ملی ہو گی کیونکہ آزادی سے قبل اردو میں ہی سرکاری کام کاج ہوتا تھا اور اردو ہی ذریعہ تعلیم تھی۔ ایک خاتون صحافی نے لکھا ہے کہ اردو تہذیب کی زبان ہے، ہندوستان کی زبان ہے، ہاں، یہ آپ کی زبان نہ ایک یوگی کی زبان ہے نہ ایک وزیر اعلیٰ کی۔
لیکن یوگی ہوں یا بی جے پی کے دوسرے لیڈران، ان پر ایسے تبصروں اور مذمت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ایک تو مسلمانوں کو ذہنی، جسمانی اور معاشی اذیت دے کر انہیں قلبی سکون ملتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اس سے ان کا ووٹ بینک بڑھتا ہے اور ان کے اقتدار کے پائے مضبوط ہوتے ہیں۔ کیا اردو کے نام پر لاکھوں روپے ہڑپ کر جانے والی اردو کی ادبی تنظیموں میں سے کسی کو یہ توفیق ہو گی کہ مفاد عامہ کی ایک اپیل دائر کر کے دوسری سرکاری زبان ہونے کے ناطے اردو کا جو حق ہے وہ اسے دلائیں؟ اگر مدرسہ بورڈ کے سلسلے میں سرکار کے فیصلے کو بدلا جا سکتا ہے، بلڈوزر جسٹس کو کافی حد تک روکا جا سکتا ہے تو اردو کے حق کے لیے بھی پر امید ہو کر قانونی لڑائی کیوں نہیں لڑی جا سکتی؟
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined