فکر و خیالات

ساحلی کرناٹک میں فرقہ واریت پھیلنے کی سیاسی تاریخ اور اس کا اقتصادی پس منظر (پارٹ-2)

فرقہ واریت کے ماحول کو ہوا دینے میں پولیس اور انتظامیہ اور مقامی میڈیا نے بھی اپنا رول نبھایا، آدور ( چک مگلور) کے فساد میں انتظامیہ نے بغیر کسی ثبوت کے آئی ایس آئی کا ہوّا کھڑا کر دیا۔

<div class="paragraphs"><p>فرقہ وارانہ فساد کی فائل تصویر، Getty Iamges</p></div>

فرقہ وارانہ فساد کی فائل تصویر، Getty Iamges

 

اپریل 1981ء میں ہندو سماج اتسو کی شروعات کی گئی تھی، اور وشو ہندو پریشد میں اس کا کافی غصہ تھا کیونکہ میناکچھی پورم میں دو ماہ قبل ایک ہزار دلت مسلمان بن گئے تھے۔ تامل ناڈو کا میناکچھی پورم بھی ان ساحلی علاقوں سے زیادہ دور واقع نہیں ہے۔ سنجیو کیلکر کی کتاب، دی لوسٹ ایئرس آف دی آر ایس ایس (2011)، کے مطابق، اس پہلی شروعات میں کانگریس کے کئی الوا لیڈر بھی شامل ہوئے تھے۔

Published: undefined

ہندو سماج اتسو (گنیش اتسو اور مندروں کے بھجن کے علاوہ) کی اس نئی روایت میں ہندوؤں کی مختلف ذاتیں متحد ہو کر شرکت کرنے لگیں، اور ان میں برہمن، کونکنی، بنت، کے علاوہ بللاوا، کللالا، دیوڈیگا، جیسے، او بی سی بھی شامل ہونے لگے، اور مختلف ذاتوں کے مٹھوں کے پجاریوں اور ان ذاتوں کے دیہی سرداروں کو ان سماج اتسو میں خاصی اہمیت دی جانے لگی۔ اس طرح سماج اتسو کے ذریعے اب ہندوؤں کے اندر کی سماجی (ذات پر مبنی) اختلافات (contradictions) پر پردہ ڈال دیا گیا۔ اس سماجی اتحاد کو "چار بی"، یعنی برہمن، بنت، بللاوا، بیک وارڈ کہا گیا۔

Published: undefined

پدننہ oral روایت (حافظے کی، غیر تحریری، روایت) میں تولو سماج کی روایتیں محفوظ ہیں۔ ان غیر تحریری روایتوں میں آر ایس ایس کے نظریے کو مضبوط کرنے والی ہندو روایتوں کو اب آسانی سے داخل کر دیا جا رہا ہے۔ مقامی دیوی دیوتاؤں کی اہمیت بنائے رکھتے ہوئے انہیں شیو اور وشنو کا اوتار قرار دیا جانے لگا۔ کل ملا کر آر ایس ایس چھ فیسٹیول مناتے ہیں۔ ورش پرتی پد ( ہندو نیا سال)، یہی ہیڈگیوار کا جنم دن بھی ہے، شیوا جی اتسو (ہندو سامراجیہ دیوتسو)، رکچھا بندھن، گُرو دکچھنا (بھگوا جھنڈا کو گُرو تصور کر کے)، دسہرا، مکر سنکرانت۔

Published: undefined

سنگھ پریوار کی تنظیموں کی رہنمائی پر اب بھی اونچی ذاتوں کا غلبہ رہا گرچہ، کارکنوں میں نچلی ذاتوں کی تعداد میں عظیم اضافہ ہونے لگا۔ ساحلی علاقوں کے کو آپریٹیو تنظیموں، مثلاً، ناریل کوآپریٹیو، اریکا نٹ کو آپریٹیو، ضلع کو آپریٹیو بینک، بھومی وکاس بینک، وغیرہ، میں اب ہندوتوا والوں کا غلبہ ہونے لگا۔ سنہ 1980ء کی دہائی میں کرشن جنم اشٹمی میں بھی آر ایس ایس والوں نے مسلمانوں کی شرکت دشوار کردی، اور مسلمانوں نے بھی اس کو شرک قرار دینا شروع کر دیا۔ اسی دہائی میں تولو آبادیوں میں پدننا folk گانوں کی غیر تحریری روایت میں خاص قسم کی ہندو روایتوں کو سنگھ پریوار نےسرایت کرا دینا شروع کیا۔ اور مقامی دیوی دیوتاؤں کو شیو اور وشنو کا اوتار قرار دے دیا۔ کمیونسٹ تحریک کا خاصہ اثر ہوا کرتا تھا۔ لیکن 1980ء کی دہائی میں ہونے والی ان کلچرل تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی ان کے پاس نہیں تھی۔ یہ رفتہ رفتہ حاشیے پر چلے گئے اور اب گمنامی کی حد کو پہنچ گئے ہیں۔ جب کہ آر ایس ایس کی کمان سنبھالنے والے بالا صاحب دیورس نے 1973 سے ہی سنگھ کا کام نچلی ذاتوں کے درمیان میں شروع کر دیا تھا۔ سنہ 1975ء کی ایمرجنسی کی مخالفت کے نام ہر تو آگے چل کر خوب خوب فائدہ اٹھایا، اور حکمرانی میں شامل بھی ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

Published: undefined

کانگریس نے بھی اس دہائی میں ایک متبادل ہندو سیاست کی کوشش کی۔ لیکن دیورس کے آر ایس ایس کی سوشل جسٹس والی سیاست زیادہ دور رس اور پائیدار ثابت ہوئی۔ کانگریس کے مرکزی کابینہ وزیر رہے جناردن پجاری نے کچھ کوششیں کیں، مثلا، مندروں کا بنوانا، ان میں نچلی ذاتوں کو داخل کروانا، وغیرہ، لیکن ناکام رہے۔ جناردن پجاری کا تعلق دیو دیگا برادری سے ہے۔ موگا ویرا برادری کے منور مادھو راج اور بللاوا برادری کے لیڈر ویرپپا موئلی کو پارٹی میں شامل کرایا۔ جو ساحلی علاقے سے پہلے شخص کرناٹک کا وزیر اعلی بننے والے ہوئے۔ مذہبی اور کلچرل میدان میں مداخلت کے بغیر انتخابی سیاست میں کئے گئے اس سوشل انجنیرنگ کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ منورما بھاردواج تو اب بی جے پی میں شامل ہیں۔

Published: undefined

فرقہ واریت کے اس ماحول کو ہوا دینے میں پولیس اور انتظامیہ اور مقامی میڈیا نے بھی اپنا رول نبھایا۔ آدور (چک مگلور) کے فساد میں انتظامیہ نے، بغیر کسی ثبوت کے، آئی ایس آئی کا ہوّا کھڑا کر دیا۔ بیئری اور نویاتھی (یہ بھی صدیوں سے تجارت سے منسلک ہیں، حقارت سے انہیں صابی کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ ساتویں آٹھویں صدی سے ہی آنے والے عرب تاجر اور مقامی لوگوں کے میل سے یہ قوم وجود میں آئی) مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول کھڑا کر دیا۔ ان دونوں مسلم برادریوں نے تجارت اور عرب ممالک کی ملازمت میں ترقی کر کے اسپتال، تعلیمی ادارے، دیگر فلاحی ادارے، اور صنعت کاری کی طرف بھی کامیاب قدم بڑھانے لگے تھے۔ یہ اب گرینائٹ ٹائلس کی تجارت میں خاص طور سے آگے جا رہے تھے۔

Published: undefined

مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا گیا کہ بیئری مسلمانوں کے یہاں کئی ہندو رواج اب بھی قائم ہیں، جو کئی مندر کو اب بھی فنڈ فراہم کر رہے تھے، اور بیئری ہی کئی مندروں پہ ڈھول بجاتے تھے، کچھ علاقوں میں مندر کی کچھ رسمیں کسی مسجد سے شروع کرکے مکمل طور پر ادا کی جاتی ہیں ( اس روایت کو سیکمما کہتے ہیں)۔ ایسی تمام سنکریٹک روایتوں پر ہندوتوا نے حملہ کرنا شروع کر دیا اور کلچرل interdependence کو ختم کرنے کی مہم چلنے لگی۔ یعنی مقامی سنکریٹک کلچر پر شمالی ہند کے ہندو کلچر کا غلبہ قائم کیا جانے لگا۔ منگلور کی درگاہ (حضرت سیدانی بی بی صاحبہ) پر اب ہندوؤں کی شرکت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ بوببریا کو بیئری مسلمانوں کے پیر کے روپ میں عقیدت سے دیکھا جاتا ہے لیکن موگا ویرا بھی ان سے عقیدت رکھتے ہیں کہ سمندر میں جانے والے مچھواروں کے محافظ یہی ہیں۔ اس سے لگاتار بیئری کو دور کرنے کی سنگھ پریوار کی کوششیں جاری ہیں۔ منگلور بندرگاہ Bunder میں 52 فی صد ناؤ کے مالک مسلم اور عیسائی ہیں جہاں اب بیئری مسلمانوں کو ٹریڈ بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی سے کچھ دوری پر ملبے بندرگاہ پر موگاویرا اور بللاوا کی اکثریت ہے جہاں مسلمان مچھوارے اور ناؤ مالک کی تعداد زیرو سے محض کچھ زیادہ ہوگی۔

Published: undefined

ساحلی علاقوں میں آرایس ایس کے اسکولوں کی ایک بڑی تعداد ہو گئی ہے، شری رام و دیا کیندر، دھرم استھل ایجوکیشن سو سائٹی، الوا ایجوکیشن سوسائٹی، وغیرہ، کا تعلق، ودیا بھارتی سے ہے۔ بیشتر اسکولوں میں نچلی ذاتوں کے ہندوؤں کے بچے ہی بڑی تعداد میں ہیں، جہاں امبیڈکر کی فوٹو کی پوجا بھی کروائی جاتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس علاقے میں تقریباً دو ہزار ایسے اسکول ہوں گے۔ ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ مرکز اور صوبہ دونوں میں بی جے پی کی حکومت ہونے کی وجہ سے ان تعلیمی تنظیموں کو اب سرکاری اور کارپوریٹ فنڈ کی بہتات ہو رہی ہے۔ عالم گیر سرمایہ اور ہندوتوا کے موجودہ اتحاد و سنگم اور صوبائی اور مرکزی ریاستی اختیارات نے ان منصوبوں کو کامیاب بنانا مزید آسان کر دیا ہے۔ اور اس طرح ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دوریوں کو بڑھوا کر نفرت و تشدد کی سیاست کو بے پناہ فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس طرح فرقہ وارانہ ہم آہنگی، رواداری کی اس روایت پر سیاسی ہندوتوا کے ان حملوں میں ہندوتوا اب کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سنگھ پریوار سے جڑا پورٹل، پوسٹ کارڈ نیوز، جنوبی کرناٹک کا مقبول پورٹل ہے، جو سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلا کر نفرت، تناؤ اور تشدد بڑھاتا ہے۔

Published: undefined

سنہ 2006ء میں بھی مسلمانوں کے ٹریڈ بائکاٹ کی مہم چلائی گئی اور اب یہ کافی frequent ہو چلا ہے۔ سنہ 2006ء میں فسادات کا ایک سلسلہ چلا۔ اگست 2008 میں عیسائیوں پر حملے ہوئے، (حالاںکہ کچھ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ کیتھولک عیسائی تو ہندوؤں سے بھی زیادہ اسلاموفوبک ہیں)۔ جبکہ کچھ کیتھولک کو یہ شکایت ہے کہ ٹتیپو سلطان نے ان پر ظلم کیا تھا۔ مارچ 2005ء اور مئی 2018 ء میں گئو رکچھا کے نام پر اوڈوپی میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد اور ہندو یووا سینے نے کئی مسلمانوں کا قتل کیا ہے۔ اکتوبر نومبر 1952ء میں بھی یہاں گئو رکچھا تحریک چلی تھی۔ اس تحریک کو ان مٹھوں نے ستمبر 1966ء میں ایک تنظیم کی شکل دے دی، اور نومبر 1966ء میں دہلی میں احتجاج میں شامل ہوئے۔ گئو کشی کے خلاف قانون بنانے کی مانگ کی۔ لیکن تب تک یہ تحریک برہمنوں تک ہی محدود تھی۔ جولائی 2018ء میں یہ تحریک کرناٹک میں زوروں پر تھی، جب کہ بجرنگ دل کا ہی ایک کارکن، ششی کمار بھٹ، کو وٹلا پولیس نے گائے کو قصابوں کے یہاں پہنچاتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔ سنہ 2005ء سے شروع ہوکر، 2008ء میں یہ تحریک تیز ہوئی اور 2009ء میں پب پر حملے ہوئے، اور 2012ء میں لوجہاد کے خلاف مزید پرتشدد تحریک شروع کر دی گئی۔ جس کے لئے کچھ تنظیمیں بنی ہوئیں ہیں۔ ایک ہے ہندو جاگرنیہ ویدیکے۔ دوسری تنظیم ہے شری رام سینے۔ سینے کا موجودہ صدر ہے، پرمود موتھالک۔ منگلور کے بیک ورڈ ذات کے ہندوؤں کو اس تحریک میں شامل کروانے میں پرمود کا اہم رول سمجھا جاتا ہے۔ مئی 2010ء میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ یہ لوگ بھاڑے پر مسلم کش فسادات میں شامل ہوتے ہیں۔ ( تفصیل کے لئے دیکھیں، دھیریندر جھا، شیڈو آرمیز، 2017، صفحات 87-108)۔ آشا جگدیش (اے۔ بی۔ وی۔ پی) جنوبی کرناٹک میں، اب، لوجہاد مخالف تحریک کا چہرہ سمجھی جاتی ہے۔

Published: undefined

مذہبی پولرائیزیشن کا یہ کھیل پولیس نے بھی ایک خاص انداز میں کھیلا ہے۔ اکیسویں صدی کی شروعات سے (یعنی سورتھکل فساد، دسمبر 1998ء کے بعد سے) پولیس کی نظر منگلور کے گینگسٹر پر پڑی۔ انڈر ورلڈ کی اس دنیا میں بھی فرقہ وارانہ پولرائیزیشن ہو چکا تھا۔ ایسے ہی ایک گینگسٹر، گوناکر شیٹی، 1989ء میں ہی ہندو یوا سینے بنا چکا تھا۔ گنیش اتسو میں ان کی خاص شرکت رہتی ہے۔ گریشیما کی رپورٹ کے مطابق منگلور کے کئی (گینگسٹر سے جڑے) افراد کا تعلق سینے سے ثابت ہوا ہے۔ یوں تو گونا کر شیٹی کا قتل ایک ہندو گینگسٹر نے ہی 1991ء میں کر دیا تھا، لیکن 1992ء کے بعد جو کریک ڈاؤن اور مبینہ انکاؤنٹر کا سلسلہ چلا، وہ فرقہ وارانہ شکل اختیار کر لیا۔ سنہ 2006ء میں ایک بی جے پی لیڈر کے قتل کے بعد اور صوبہ میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد، مسلم نوجوانوں کی غیر قانونی گرفتاریاں اورمبینہ انکاؤنٹر کا سلسلہ مزید تیز ہوگیا، اور لگاتار مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں، ان پر سخت تعذیرات نافذ کرنا اور انکاؤنٹر میں ان کا قتل عام ہوتا چلا گیا۔ منگلور بار ایسوسی ایشن کے وکیل ان کے مقدمے کی پیروی سے انکار کرنے لگے۔ ان حالات میں ایک محنتی، پڑھا لکھا نوجوان، وکیل، نوشاد قاسم جی، نے ان نوجوانوں کی لڑائی لڑنی شروع کی۔ نوشاد نے تین پولیس افسروں، وینکٹیش پر سننا، جینت شیٹی، ناگ راج، کے خلاف شکایتیں دائر کرنا شروع کر دیا۔ ان پر ان زیادتیوں کو کرنے کے علاوہ انڈر ورلڈ سے سانٹھ گانٹھ، بلیک میلنگ، اور دھمکی، روپئے اینٹھنے، وغیرہ، کی شکایتیں درج کرنے لگا۔ ہیومن رائٹس کمیشن، سینئر اعلی پولس افسر، اور صدر جمہوریہ تک کو شکایتیں کیں۔

Published: undefined

آخر کار 9 اپریل 2009ء کو نوشاد کا قتل کر دیا گیا۔ قتل کے بعد جاۓ واردات پر پہنچ کر بعض انسان دوست دیانت دار صحافیوں نے پولس انسپیکٹر وینکٹیش پرسننا کے چہرے پر لکھی عبارتیں پڑھ لی تھیں۔ ویینکٹیش کو سنہ 2015ء میں صدر جمہوریہ کے میڈل سے نوازا گیا۔ کرناٹک صوبہ کی تاریخ، ما بعد آزادی کے حوالے سے، دو قتل کئی معنوں میں یاد کیا جانا ضروری ہے۔ نوشاد کے قتل سے 33 سال قبل 1976 کے رمضان میں ایک اور قتل ہوا تھا۔ کے اسماعیل کو، منگلور سے 35 کلو میٹر دور کلڑکا میں اسماعیل کو اس کی دوکان پر سے عشا کی نماز کے بعد پولس اٹھا کر لے گئی۔ تین دن بعد اس کی لاش ملی۔ کرناٹک کے سابق وزیر تعلیم بی اے معیدین نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ اسماعیل نے 1974 میں اپنی دوکان کو ہی دفتر بنا لیا تھا اور رعیتوں (tenants) کی دن رات مدد کرتے ہوئے انہیں تمام طرح کے دستاویزی امداد کر کے انہیں لینڈ ریفارم قانون 1974 کے تحت زمینیں دلوانے کا کام کیا تھا۔ اور اچانک ایک دن قتل کر دیا گیا۔ اسی 2001 سے 2006 کے دوران مسلم تنظیم، کے ایف ڈی (بعد کو پی۔ ایف۔ آئی/ ایس۔ ڈی۔ پی۔ آئی۔/ سی۔ ایف۔ آئی) بھی وجود میں آئیں اور سرگرم ہوئیں۔

(مضمون نگار پروفیسر محمد سجاد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ تاریخ سے منسلک ہیں)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined