فکر و خیالات

6 دسمبر پر لکھی گئی کیفی اعظمی کی نظم ’دوسرا بنواس‘ کی تنبیہ... حسنین نقوی

اس نظم میں کیفی طنز کو تیز دھار چھری کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ ان کے سامنے وہ مناظر ہیں جب پڑوسی دھوکہ دیتے ہیں، گھروں کو نذر آتش کرتے ہیں اور ہجوم جو اپنی سفاکی کو مذہبی رسومات کے پردے میں چھپاتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

ملک کی تاریخ میں کچھ ایسے لمحات آتے ہیں جب کوئی واقعہ صرف اینٹ اور گارے کو ہی نہیں توڑتا، بلکہ تہذیب کی اخلاقی ریڑھ کی ہڈی تک کو چکنا چور کر دیتا ہے۔ 6 دسمبر 1992 ایسا ہی ایک لمحہ تھا۔ یہ محض ایک مسجد کے انہدام کا واقعہ نہیں تھا، بلکہ اُس عہد نامہ کے بکھر جانے کا دن تھا جو ہندوستان نے خود اپنے ساتھ کیا تھا۔ وہ عہد جس میں کہا گیا تھا کہ مذہب کو کبھی ہتھیار نہیں بنایا جائے گا، وہ عہد جس کے مطابق کثرتِ تہذیب اس کا گہرا ترین ورثہ ہے۔

Published: undefined

کیفی اعظمی نے اس حادثہ اور دلوں میں پیدا شگاف کو ایک شاعر کی وجدان بھری بصیرت اور ایک محبِ وطن کے کرب کے ساتھ محسوس کیا۔ اُن کی نظم ’دوسرا بنواس‘ ایودھیا میں برپا ہونے والی جارحیت پر ابتدائی اور نہایت تہہ دار ادبی احتساب ہے۔ یہ محض سیاسی تنقید نہیں ہے، بلکہ ایک نوحہ ہے۔ ایک فریاد ہے جو بتاتی ہے کہ اخلاقی جرأت، اخوت پر مبنی بقائے باہمی اور تہذیبی یگانگت والا ہندوستان ایک بار پھر جلاوطنی میں دھکیل دیا گیا ہے۔

Published: undefined

اس نظم میں اعظمی طنز کو تیز دھار چھری کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اُن کا غم کوئی مبہم احساس نہیں، بلکہ انسانوں کی شکل میں اُن کے سامنے کھڑا ہے۔ ان کے سامنے وہ مناظر ہیں جب پڑوسی دھوکہ دیتے ہیں، ہم وطن گھروں کو نذر آتش کرتے ہیں، اور وہ ہجوم جو اپنی سفّاکی کو مذہبی رسومات کے پردے میں چھپاتا ہے۔ جب کیفی اعظمی لکھتے ہیں ’شاکاہاری تھے مرے دوست تمہارے خنجر‘، تو وہ اُس ثقافتی خود پسندی کو بے نقاب کر دیتے ہیں جو اکثر ہماری سماجی زندگی میں فضیلت کے نام پر پیش کی جاتی ہے۔ مہذب ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے ہاتھوں کیا جانے والا تشدد کبھی ’کمزور‘ نہیں ہوتا، بلکہ وہ زیادہ منافقانہ ہو جاتا ہے۔ یہ نظم اُس وقت اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے جب کیفی یہ آخری مصرعہ لکھتے ہیں ’6 دسمبر کو ملا دوسرا بنواس مجھے‘۔ اس مصرعہ میں اعظمی ’رام‘ کو اس قومی سانحہ کا گواہ بنا دیتے ہیں۔ شاعر یہاں کسی سیاسی فتوحات والے ’رام‘ کا تصور نہیں کرتا بلکہ ایک تھکے ہوئے، زخمی رام کا تصور کرتا ہے جو اپنے ہی شہر سے مایوسی میں منہ موڑ لیتا ہے۔ اس بار رام کے ذریعہ جلاوطنی اختیار کرنے کی وجہ مختلف ہے۔ یہ کسی عقیدت کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ 6 دسمبر کے بعد باقی رہ گئے تر بتر زمین کی وجہ سے ہے۔ اس نظم کے ذریعہ دیا گیا کیفی اعظمی کا پیغام آج بھی گونج رہا ہے، کیونکہ جلاوطنی صرف جغرافیائی نہیں ہوتی۔ یہ جذباتی بھی ہے، اخلاقی بھی ہے اور تہذیبی بھی۔

Published: undefined

ایک ملک اُس وقت جلاوطن ہو جاتا ہے جب وہ اپنے انصاف کے احساس کو کھو دے۔ ایک سماج اُس وقت جلاوطن ہو جاتا ہے جب وہ ایک دوسرے کو بنیادی طور پر انسان سمجھنا بھول جائے۔ عوام اُس وقت جلاوطن ہو جاتی ہیں جب یادداشت ’فتح کے نشہ‘ میں بدل جائے۔ 3 دہائیوں بعد بھی نظم ’دوسرا بنواس‘ تیز دھار حقیقت کی طرح کاٹتی ہے۔ اس کی قوت صرف اس میں نہیں کہ یہ کس چیز کی مذمت کرتی ہے، بلکہ اس میں بھی ہے کہ یہ کس حادثہ کا سوگ مناتی ہے... یعنی ایک نرم مزاج ہندوستان، ایک زیادہ دلیر ہندوستان، ایک ایسا ہندوستان جو اپنی روحانی روایت پر اتنا مطمئن تھا کہ اسے کبھی کسی دوسرے کے عقیدے سے خوف کھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

Published: undefined

جب ہم کیفی اعظمی کے اشعار کی طرف پلٹتے ہیں تو یاد رکھنا چاہیے کہ شاعری منہدم شدہ ڈھانچوں کو دوبارہ نہیں بناتی، لیکن یہ ضمیر کو دوبارہ تعمیر کرتی ہے، اور ضمیر ہی وہ واحد ڈھانچہ ہے جو ٹوٹے ہوئے جمہوری وجود کو سہارا دے سکتا ہے، بشرطیکہ وہ جاگ اٹھے۔ اگر 6 دسمبر کو محض غم کے دن سے آگے کوئی معنی حاصل کرنا ہے تو اسے ہر سال ایک ’یومِ احتساب‘ بنانا ہوگا۔ ایک یاد دہانی کہ کوئی ملک نفرت کے نام پر ہونے والے نوحہ کو بھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ کیفی کا ’رام‘ تو غمگین ہو کر چلا گیا تھا۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم لوٹیں، انصاف کی طرف، اس ہندوستان کی طرف جو اپنے ہی اخلاقی تخیل سے مستقل جلاوطنی اختیار نہیں کر سکتا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined