
Getty Images
تحریر: پریم شنکر جھا
ایسے وقت میں جب یہ تاثر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ خود اعلیٰ ترین عدالتیں بھی نریندر مودی حکومت کی خواہشات کے سامنے جھکتی نظر آتی ہیں، یہ دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ ملک کی ایک نچلی عدالت نے قانون کی بالادستی کے حق میں نہ صرف واضح بلکہ اصولی اور جرأت مندانہ موقف اختیار کیا ہے۔ دہلی کے راؤز ایونیو میں واقع خصوصی عدالت کے جج وشال گوگنے نے 16 دسمبر کو یہی کردار ادا کیا۔
انہوں نے جس معاملے کو مسترد کیا، وہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی جانب سے 2021 میں دائر کیا گیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ینگ انڈین، جو اسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ (اے جے ایل) کی ہولڈنگ کمپنی ہے اور نیشنل ہیرالڈ شائع کرتی ہے، کے شیئر ہولڈروں نے 90.21 کروڑ روپے کا غبن کر کے اے جے ایل کی قیمتی غیر منقولہ جائیدادوں پر قبضہ حاصل کیا۔ ای ڈی کے مطابق یہ پورا معاملہ منی لانڈرنگ سے متعلق تھا۔
Published: undefined
سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور دیگر کے خلاف ای ڈی کی شکایت (چارج شیٹ) کا نوٹس لینے سے انکار کرتے ہوئے جج گوگنے نے فیصلہ سنایا کہ یہ شکایت انسدادِ منی لانڈرنگ قانون (پی ایم ایل اے) کے تحت ناقابلِ قبول ہے، کیونکہ اس قانون کے تحت کسی معاملے کی جانچ اور قانونی کارروائی اس وقت تک شروع نہیں ہو سکتی جب تک کسی شیڈیولڈ جرم میں پہلے سے ایف آئی آر درج نہ ہو۔
جج گوگنے کا یہ موقف بالکل واضح اور ناقابلِ تردید تھا۔ مبینہ منی لانڈرنگ کا بنیادی الزام ایک نجی فرد سبرامنیم سوامی نے لگایا تھا۔ اس الزام کی جانچ کسی سرکاری ایجنسی، یعنی سی بی آئی کو کرنی چاہیے تھی۔ سی بی آئی کو ایف آئی آر درج کر کے اپنی رپورٹ ای ڈی کو سونپنی لازم تھی، تبھی ای ڈی کو منی لانڈرنگ کے الزام کی جانچ شروع کرنے کا اختیار حاصل ہوتا لیکن ای ڈی نے نہ سی بی آئی سے اور نہ کسی دوسری مجاز ایجنسی سے کوئی رپورٹ حاصل کی اور نہ ہی اس کا انتظار کیا۔ اس نے محض ایک نجی شکایت کی بنیاد پر مقدمہ درج کر لیا۔ ایسی صورت میں جج گوگنے کے پاس اس مقدمے کو مسترد کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا اور یہی قانونی طور پر درست فیصلہ تھا۔
Published: undefined
یہ سوال اہم ہے کہ ای ڈی نے عدالت میں معاملہ لے جانے سے پہلے طے شدہ قانونی عمل کی پیروی کیوں نہیں کی۔ اس کیس کی پوری روداد کئی حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔
فروری 2013 میں سبرامنیم سوامی نے نئی دہلی کی ایک میٹروپولیٹن مجسٹریٹ عدالت میں نجی شکایت دائر کی، جس میں الزام لگایا گیا کہ ینگ انڈین کے شیئر ہولڈروں اور ڈائریکٹروں نے دھوکہ دہی، مالی بدعنوانی اور کانگریس پارٹی، اس کے عطیہ دہندگان، اے جے ایل اور اس کے شیئر ہولڈروں کے خلاف مجرمانہ خیانت کا ارتکاب کیا ہے۔
کسی ٹھوس تصدیق یا دستاویزی جانچ کے بغیر، مجسٹریٹ نے ملزمان کو طلب کر لیا اور انہیں عدالت میں پیش ہونے اور ضمانت کی درخواست دینے پر مجبور کیا گیا، یہ سب اس مرحلے پر ہوا جب شکایت کنندہ کو یہ ثابت بھی نہیں کرنا پڑا تھا کہ اس کے الزامات کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود ہے۔
Published: undefined
یہ مقدمہ نچلی عدالت میں 2016 سے 2021 کے اوائل تک چلتا رہا۔ اس دوران ملزمان کے وکلاء نے سوامی سے جرح کی مگر وہ اپنے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ جنوری 2021 میں سوامی نے خود ہی دہلی ہائی کورٹ سے اپنے مقدمے پر روک لگانے کی درخواست کر دی۔ عین اسی وقت، جب معاملہ آگے نہیں بڑھ پا رہا تھا، ای ڈی نے مداخلت کی اور سوامی کی نجی شکایت کو بنیاد بنا کر اپنی جانچ شروع کر دی، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اصل الزام منی لانڈرنگ کا ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت کے ای ڈی ڈائریکٹر راجن کٹوچ کا ماننا تھا کہ محض ایک نجی فوجداری شکایت ای ڈی کی جانچ کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ اختلافِ رائے کو برداشت نہ کرنے والے وزیر اعظم نے یہ بات سامنے آتے ہی چند گھنٹوں کے اندر بدلہ لے لیا۔ اسی رات راجن کٹوچ کو ان کے چیف انویسٹی گیشن آفیسر ہمانشو کمار کے ساتھ عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
Published: undefined
ای ڈی کو تقریباً یقین تھا کہ اس کے الزامات عدالت میں برقرار نہیں رہ پائیں گے لیکن کٹوچ کی برطرفی نے یہ واضح کر دیا تھا کہ مودی حکومت صرف ایک ہی نتیجہ چاہتی ہے۔ اس لیے ای ڈی کی واحد امید یہ تھی کہ کوئی ایسا جج مل جائے جو عدالتی بے ضابطگیوں کو نظرانداز کر دے اور حکومت کے حق میں فیصلہ سنا دے۔ مگر جج گوگنے اس امید پر پورا نہیں اترے۔
گاندھی خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ چلانے کی ای ڈی کی مسلسل کوششوں کے پیچھے ایک اور، کہیں زیادہ سنگین، مقصد کارفرما ہے۔ یہ وزیر اعظم مودی کا وہ پختہ عزم ہے جس کے تحت وہ گاندھی خاندان کو اس اخلاقی مقام سے گرانا چاہتے ہیں جو عوام نے انہیں عطا کیا ہے اور خود کو ہندو مذہب کے محافظ اور ہندو راشٹر کے علمبردار کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
لیکن یہاں بھی مودی حکومت کی یہ کوششیں ناکامی سے دوچار ہونے والی ہیں، کیونکہ نہ کانگریس اور نہ ہی ینگ انڈین، جو نیشنل ہیرالڈ کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی، نے قانون کی حدود سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھا۔
اس پورے معاملے کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لیے ہمیں 88 برس پیچھے جانا ہوگا، جب پنڈت جواہر لال نہرو نے 1937 میں اس اخبار اور اس کی بنیادی کمپنی، اسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ، کی بنیاد رکھی۔ کانگریس کا مقصد نیشنل ہیرالڈ اور اس کے ہندی اور اردو ایڈیشن شائع کرنا تھا۔ اس کے لیے ایک ایسی کمپنی قائم کی گئی جس کا واضح مقصد تھا ‘انڈین نیشنل قومی کانگریس کی پالیسی اور نظریات کی عکاسی کرنا۔‘
Published: undefined
1937 میں نیشنل ہیرالڈ کا آغاز شاندار رہا لیکن 1942 میں انگریز حکومت کی جانب سے بھارت چھوڑو تحریک کی حمایت کے سبب لگائی گئی پابندی نے اس اخبار کی کمر توڑ دی۔ 1945 میں پابندی ہٹنے تک حالات یکسر بدل چکے تھے۔ برطانوی اقتدار اپنے اختتام کے قریب تھا اور پنڈت نہرو سمیت وہ تمام بڑے رہنما جو پہلے باقاعدگی سے اس اخبار کے لیے لکھتے تھے، حکومت سازی اور اقتدار کی منتقلی میں مصروف ہو چکے تھے۔
اسی دوران ہندستان ٹائمز، دی ٹربیون، دی انڈین ایکسپریس اور بہار میں سرچ لائٹ جیسے اخبارات نے قوم پرستانہ صحافت کی قیادت سنبھال لی۔ نتیجتاً نیشنل ہیرالڈ آہستہ آہستہ قرض میں ڈوبتا چلا گیا اور گمنامی کے کنارے جا پہنچا۔
Published: undefined
اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اے جے ایل کو کانگریس پارٹی سے مالی مدد مانگنی پڑی۔ 2002 سے 2010 کے درمیان، جب اے جے ایل شدید مالی بحران سے دوچار تھی، آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے اسے سو سے زائد قرضے دیے تاکہ تنخواہیں، ٹیکس اور دیگر واجبات ادا کیے جا سکیں۔ 2011 تک یہ قرض بڑھ کر 90.21 کروڑ روپے ہو گیا، جسے اے جے ایل نے تنخواہوں، گریچویٹی، پروویڈنٹ فنڈ، ٹیکس، وی آر ایس اور دیگر سرکاری واجبات کی ادائیگی میں استعمال کیا۔
ایسی کسی کمپنی کو بحال کرنے کا ایک عام اور قانونی طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے قرض کو جزوی یا مکمل طور پر ایکویٹی میں تبدیل کر دیا جائے اور وہ شیئر ایسے افراد کو دیے جائیں جو اس بحالی کے خطرے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ کانگریس نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔
Published: undefined
اے جے ایل کے قرض کو اپنے ذمے لینے کے لیے ینگ انڈین کے نام سے ایک کمپنی قائم کی گئی، جس میں گاندھی خاندان اور دیگر افراد بڑے شیئر ہولڈر تھے۔ ینگ انڈین کو کمپنی ایکٹ کی دفعہ 25 (موجودہ دفعہ 8) کے تحت ایک غیر منافع بخش ادارے کے طور پر رجسٹر کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت کمپنی کے منافع کو شیئر ہولڈروں میں تقسیم کرنا قانونی طور پر ممنوع ہے۔ حاصل ہونے والا ہر فائدہ کمپنی میں ہی رہتا ہے اور صرف طے شدہ مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ اس وقت کے ای ڈی ڈائریکٹر راجن کٹوچ نے سوامی کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ایک برہم اور مایوس مودی حکومت گاندھی خاندان کو ایک ایسے جرم کی سزا دینے پر تلی ہوئی ہے جو انہوں نے سرے سے کیا ہی نہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined