کرور بھگدڑ، ویڈیو گریب
گزشتہ دنوں کرور میں گرمی بے رحمانہ تھی، ایسی کہ گلا خشک ہو جائے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جائے۔ 27 ستمبر 2025 کی دوپہر تک مغربی تمل ناڈو کا یہ کپڑوں کا شہر تندور بن چکا تھا۔ اپنے پسندیدہ فلمی ہیرو وجے کو دیکھنے کے لیے ایروڈ جانے والے راستے پر ویلوسامی پورم میں جمع خواتین اپنے شیر خوار بچوں کو تیز دھوپ سے بچانے کے لیے پھٹے دوپٹے اوڑھا رہی تھیں۔ دوپہر کا وقت ہیرو کے آنے میں ہو رہی تاخیر کو ناقابلِ برداشت بنا رہا تھا۔
Published: undefined
ٹی وی کے کے کارکن، جن میں زیادہ تر مرد تھے، مڑے ہوئے پرچوں اور پرانے اخبارات سے خود کو ہوا دے رہے تھے۔ بچے پیاس سے رو رہے تھے، بوڑھے گرمی سے بےہوش ہو کر گر پڑ رہے تھے۔ پھر بھی وہ سب جوزف وجے چندر شیکھر کا انتظار کر رہے تھے، اس فلمی ستارے کا جسے لوگ "تھلاپتی" کہتے ہیں، جس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سیاست میں بھی ان کی قیادت کرے گا، بالکل اسی طرح جیسے پردے پر کرتا ہے، ناانصافی کو للکارنے والا محافظ، ہر طوفان میں ڈٹ جانے والا رہنما۔
Published: undefined
جب شام کو ویلوسامی پورم میں بھیڑ آگے بڑھی تو بیریکیڈ گر گئے، ٹِن کی چھتیں ڈھہ گئیں اور کئی لوگ کچلے گئے۔ چند لمحوں میں جشن ماتم میں بدل گیا۔ بکھری ہوئی چپلوں، مٹی میں اٹی وردیوں اور ٹریفک میں پھنسی ایمبولینسوں کی تصویریں قومی سرخیوں میں چھا گئیں۔
Published: undefined
کرور کے لوگوں کے لیے یہ سانحہ محض ایک حادثہ نہیں تھا۔ جیسا کہ کئی لوگوں نے کہا، یہ وہ لمحہ تھا جب سنیما اور حقیقت ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ دہائیوں سے فلمی ستارے تمل ناڈو کی سیاسی سوچ پر چھائے رہے ہیں۔ لیکن کرور کے سانحے نے سوال اٹھایا: کیا تماشا حکومت بن سکتا ہے؟ کیا پردے کا ہیرو عوامی زندگی کی سخت اور بے رنگ ذمہ داریوں کو نبھا سکتا ہے؟ کیا مداحوں کے زور پر چلنے والی تحریک حقیقی زندگی کے امتحانوں میں کامیاب ہو سکتی ہے؟
Published: undefined
ٹی وی کے (تملگا ویٹری کژگم) نے 25 ستمبر کو کرور پولیس سے شہر کے مرکزی مقامات جیسے لائٹ ہاؤس چوک یا بس اسٹینڈ پر ریلی کی اجازت مانگی تھی۔ پولیس نے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر وہاں اجازت دینے سے انکار کر دیا اور اس کے بجائے کرور، ایروڈ روڈ پر ویلوسامی پورم میں جلسے کی اجازت دی، جہاں اکثر سیاسی اجتماعات ہوتے ہیں۔ یہاں تقریباً 500 سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ پولیس کو 10 سے 15 ہزار افراد کے آنے کی توقع تھی، جیسا کہ پارٹی نے اپنے درخواست فارم میں ذکر کیا تھا۔
Published: undefined
طے شدہ پروگرام کے مطابق وجے کو صبح تقریباً 8:45 پر نمکّل اور دوپہر 12:45 پر کرور میں تقریر کرنی تھی۔ مگر وہ دوپہر 2 بجے نمکّل پہنچے، وہاں 2:30 بجے تک بولے، پھر اپنے قافلے کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب وہ تقریباً چھ گھنٹے تاخیر سے شام 7 بجے کرور پہنچے، تب تک ہزاروں لوگ صبح سے جھلستی دھوپ میں انتظار کر رہے تھے۔ نمکّل سے آنے والے حامیوں نے بھی ہجوم میں اضافہ کر دیا۔ بعد میں ویڈیوز میں لوگوں کو سڑکوں پر، درختوں اور ٹِن کی چھتوں پر چڑھتے دیکھا گیا، اور جب وجے کی بس اسٹیج کے قریب پہنچی تو بھیڑ آگے کی طرف ٹوٹ پڑی۔ ہجوم اتنا بڑھ گیا کہ ایمبولینس بھی راستہ نہیں بنا پا رہی تھی۔
Published: undefined
عینی شاہدین کو وہ لمحہ صاف یاد ہے۔ اس حادثے میں بچ جانے والے ایک شخص نے بتایا، "جب وہ آئے تو کئی لوگ پہلے ہی بے ہوش ہو چکے تھے۔ پھر بھی، انہوں نے صرف پانی کی بوتلیں پھینکیں، ہاتھ ہلایا اور چلے گئے۔" شام ڈھلے ہوا میں اڑتی وہ بوتلیں بہتوں کو طنزیہ لگیں، جیسے ایک فلمی منظر ہو جو نیچے موجود مایوس لوگوں کا مذاق اڑا رہا ہو۔ امیمّا لکشمی، جو اپنے دو بچوں کے ساتھ آئی تھیں، نے تلخی سے کہا: "ہم نے ان پر فلموں کی وجہ سے یقین کیا۔ مگر حقیقت میں انہوں نے ہمیں بے سہارا چھوڑ دیا۔ وہ کوئی لیڈر نہیں ہیں۔"
Published: undefined
اس سانحے کے بعد ایمبولینسیں زخمیوں کو لے جا رہی تھیں، رشتہ دار تصویریں لیے اسپتالوں کے باہر رو رہے تھے، اور افواہیں سرکاری بیانات سے کہیں تیزی سے پھیل رہی تھیں۔ سیاسی طبقہ بے چین تھا، مگر وجے خود خاموش رہے۔ جب تِرِچی ایئرپورٹ پر صحافیوں نے ان سے سوال کیا تو وہ کچھ کہے بغیر آگے بڑھ گئے۔ بعد میں انہوں نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں کہا کہ وہ "ناقابلِ بیان تکلیف میں مبتلا" ہیں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ سے اپنے حامیوں کی حفاظت کی اپیل کی اور کہا کہ اگر سزا ضروری ہے تو وہ ان پر لگائی جائے، پارٹی کارکنوں پر نہیں۔
Published: undefined
حکومت نے ٹی وی کے کے منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کی اور ان پر کارروائی کے لیے خصوصی ٹیمیں بنائیں۔ حزبِ اختلاف نے آزادانہ تفتیش کا مطالبہ کیا۔ این ڈی اے کی تحقیقاتی کمیٹی نے سپریم کورٹ کے کسی موجودہ جج کی سربراہی میں تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔ دباؤ بڑھنے پر ٹی وی کے نے اپنی ریاست گیر ریلیاں منسوخ کر دیں۔ حقیقت یہ تھی کہ وہی مہم جس نے وجے کو قومی سطح پر توجہ دلائی تھی، اب ان کے اور ان کی پارٹی کے لیے بوجھ بن چکی تھی۔
Published: undefined
کرور کے اس سانحے کو وجے کی ذاتی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ 1974 میں چنئی میں پیدا ہونے والے وجے، فلم ڈائریکٹر ایس۔ اے۔ چندرشیکھر اور گلوکارہ شوبھا کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے دس سال کی عمر میں فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کا ابتدائی کیریئر اتار چڑھاؤ سے بھرا رہا، ناقدین انہیں غیر پختہ اداکار کہتے تھے۔ مگر 2000 کی دہائی کے آغاز تک انہوں نے اپنا خاص انداز پا لیا تھا، ایک نیک اور بہادر ہیرو جو ناانصافی کے خلاف لڑتا ہے اور کمزوروں کی حفاظت کرتا ہے۔ ’گھلی‘، ’تھوپکّی‘، ’مرسل‘ اور ’ماسٹر‘ نے انہیں باکس آفس کا بادشاہ بنا دیا۔
Published: undefined
ان کی کچھ فلموں میں سیاست کے اشارے بھی شامل تھے۔ ’مرسل‘ میں جی ایس ٹی اور نوٹ بندی پر مبنی مکالموں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ناراض کر دیا۔ وجے نے نیٹ امتحان کی مخالفت کی اور مودی حکومت کی مرکزی پالیسیوں پر تنقید کی۔ ان کے فین کلب سماجی خدمت کے گروپوں میں بدل گئے، خون عطیہ کیمپ، سیلاب امدادی مہمات، اور زمینی سطح پر مہمات چلانے لگے۔ 2021 تک ان کے گروپوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا، اور 2024 میں ٹی وی کے کا باضابطہ قیام عمل میں آیا۔
Published: undefined
انہوں نے دراوڑ روایت سے کھل کر اثر لیا۔ اپنی تقاریر میں وہ پَیریار اور امبیڈکر کا حوالہ دیتے ہیں، نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور بدعنوانی سے لڑنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پالیسی کی گہرائی کا فقدان ہے۔ ایم جی آر نے سیاست کا تجربہ ڈی ایم کے کے اندر حاصل کیا تھا، اور جے للیتا نے اپنے کرشمے کو انتظامی مہارت میں بدلا تھا۔ اس کے برعکس، وجے کے پاس کوئی تربیت نہیں ہے۔ وہ پریس کانفرنسوں کے بجائے شاندار ریلیوں کو اور مشکل سوالوں کے بجائے ویڈیو پیغامات کو ترجیح دیتے ہیں۔ بحران کے وقت وہ خاموش رہتے ہیں۔ آبی تنازعات، ذات پات کی عدم مساوات یا دہلی کے ساتھ مالی معاملات پر ان کے بیانات مبہم رہے ہیں۔
Published: undefined
کیا کرور کا سانحہ وجے کی سیاسی زندگی میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوگا؟ تمل ناڈو کی سیاست کے ماہرین کے مطابق، یہ واقعہ ان کے فلمی کردار اور حقیقی زندگی کے طرزِ عمل کے درمیان تضاد کی جھلک ہے۔ پی۔ کے۔ سری نیواسن کے مطابق، "ان کے فلمی کردار ہمدردی اور جرات کی علامت ہیں، مگر سیاست میں وہ ذمہ داری سے بچتے ہیں۔ وہ ہمدردی کا تاثر دیتے ہیں، لیکن جب اس کی ضرورت ہوتی ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ قیادت نہیں، چالاکی ہے۔"
Published: undefined
کرور کے اس سانحے سے بچنے والے لوگوں کے لیے مایوسی گہری اور ذاتی ہے۔ ایک دکاندار این۔ پی۔ رمیش، جس نے بڑی مشکل سے ایک بچے کو ہجوم سے نکالا، نے کہا کہ "ہمیں لگا تھا کہ وجے کو پرواہ ہوگی، مگر وہ دیر سے آئے، بوتلیں پھینکیں، مسکرائے اور چلے گئے۔ "وجے کے قافلے کے پیچھے چلنے والے نوجوان سُندرم راگھون نے یاد کیا کہ اس کے سامنے ہی ایک لڑکا بےہوش ہو گیا تھا اور اس کی ماں چیخ رہی تھی۔ لیکن وجے؟ انہوں نے ایک بوتل پھینکی اور چلے گئے۔"
Published: undefined
کرور کی یہ تصویر ہمیشہ یاد رہے گی۔ یہ یاد دلاتی رہے گی کہ فن اور اس پر فدا ہو جانے والے لوگوں کی زندگیوں کے درمیان فاصلہ کتنا گہرا ہو سکتا ہے۔
Published: undefined