فکر و خیالات

روس سے تیل کی خریداری: ہندوستان کے لیے کتنا فائدہ مند اور کتنا دشوار گزار!

روس سے رعایتی تیل خرید کر ہندوستان نے وقتی معاشی فائدہ حاصل کیا مگر اس فیصلے نے اسے مغربی دباؤ، سفارتی توازن اور عالمی سیاست کے مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

 

روس اور یوکرین کی جنگ نے عالمی توانائی کے توازن کو یکسر بدل دیا ہے۔ مغربی ممالک کی طرف سے روس پر معاشی پابندیاں لگنے کے بعد روسی تیل کے خریداروں میں ایک بڑی کمی آ گئی، لیکن اسی دوران ہندوستان نے روس سے بڑی مقدار میں رعایتی قیمت پر خام تیل خریدنا شروع کر دیا۔ ابتدا میں یہ فیصلہ محض معاشی نفع کے طور پر دیکھا گیا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ معاملہ صرف توانائی یا تجارت کا نہیں رہا بلکہ اس کے سفارتی اور جغرافیائی پہلو بھی نظر آنے لگے۔

سب سے پہلا اور ظاہری فائدہ تو معاشی ہے۔ ہندوستان دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے، جو اپنی توانائی کی ضروریات کا تقریباً 85 فیصد بیرون ملک سے حاصل کرتا ہے۔ ایسے میں جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی تھیں، روس نے اپنی مشکلات کم کرنے کے لیے ہندوستان کو بھاری رعایت پر تیل دینا شروع کیا۔

Published: undefined

پہلے ہندوستان روس سے کل درآمدات کا محض دو فیصد سے کم تیل لیتا تھا، لیکن 2024 اور 2025 میں یہ حصہ بڑھ کر 40 فیصد تک پہنچ گیا۔ اس رعایتی تیل نے ہندوستان کی درآمدی لاگت کو نمایاں طور پر کم کیا اور افراطِ زر یعنی مہنگائی کے دباؤ کو بھی کچھ حد تک کم کیا۔

لیکن یہ فائدہ صرف معاشی سطح تک محدود نہیں ہے۔ اس فیصلے نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو بھی ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا۔ ایک طرف ہندوستان امریکہ، یورپی یونین اور جاپان جیسے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کر رہا ہے اور دوسری طرف وہ روس سے بھاری مقدار میں تیل خرید رہا ہے، جو مغرب کے لیے کسی حد تک تشویش کا باعث ہے۔ اسی وجہ سے مغربی ممالک بالخصوص امریکہ ہندوستان پر روس سے تیل نہ خریدنے کا دباؤ بھی بنا رہا ہے اور امریکہ اس دباؤ کے لئے ٹیرف کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ یوں ہندوستان نے ایک نازک توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی، ایک طرف مغرب سے قریبی تعلقات، اور دوسری طرف روس کے ساتھ تاریخی دفاعی شراکت داری کو برقرار رکھنا، لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہندوستان یہ توازن کب تک قائم رکھ پائے گا؟

Published: undefined

روس سے تیل خریدنے کے فیصلے نے ہندوستان کو کچھ خطرناک اقتصادی اور سیاسی دائرہ کاروں میں بھی داخل کر دیا ہے۔ جس میں پہلا خطرہ مالیاتی نظام سے متعلق ہے۔ چونکہ زیادہ تر بین الاقوامی لین دین ڈالر میں ہوتا ہے، لیکن روس پر مغربی پابندیوں کی وجہ سے ہندوستانی کمپنیوں نے ’درہم‘ اور ’روبل‘ جیسی متبادل کرنسیوں میں ادائیگیاں شروع کیں۔ دوسرا خطرہ انشورنس اور شپنگ کا ہے۔ روسی تیل لے جانے والے جہازوں کو بعض مغربی بندرگاہوں تک رسائی نہیں ملتی، یا ان کی انشورنس کمپنیوں پر پابندیاں ہوتی ہیں۔ اس سے نہ صرف لاجسٹک لاگت بڑھتی ہے بلکہ کسی حادثے یا تنازع کی صورت میں مالی نقصان کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ تیسرا خطرہ عالمی سیاست میں الگ تھلگ ہونے کا ہے۔ اگر روس پر مزید سخت پابندیاں لگتی ہیں تو ہندوستان کو مجبوراً کوئی فیصلہ کرنا ہوگا، یا تو رعایتی تیل لینا جاری رکھے، یا مغربی دباؤ کے سامنے جھک کر اسے روک دے۔ دونوں صورتوں میں نقصان کا امکان موجود ہے۔

ایسے میں امریکی صدر ٹرمپ بار بار یہ کہہ رہے ہیں ہندوستان روس سے تیل نہیں خریدیگا اور اس کا دباؤ روس پر پڑے گا اور جلد ہی روس یوکرین جنگ کا اختتام ہو جائے گا۔ حقیقت پر نظر ڈالیں تو ہندوستان ہمیشہ سے ’غیر جانبداری‘ کی پالیسی پر عمل کرتا آیا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں بھی دہلی نے دونوں بلاکوں کے درمیان فاصلہ رکھتے ہوئے اپنے قومی مفاد کو ترجیح دی۔ موجودہ صورتحال میں بھی وہی حکمتِ عملی اپنائی جا رہی ہے، لیکن دنیا اس وقت طاقت دو بلاکوں میں تقسیم تھی اور ایسے میں کسی کے ساتھ کھڑے نظر آنا اپنی شناخت سے سمجھوتہ کرنے کے مترادف تھا اور اب طاقت کا مرکز صرف ایک کے پاس ہے یعنی امریکہ کے پاس اس لئے اس وقت فیصلہ کرنا بڑا سخت ہے۔ ابھی تک ہندوستان امریکی صدر کے بیانات پر کوئی واضح رد عمل ظاہر نہیں کر رہا، لیکن کل اگر روس پر مغربی دباؤ میں اضافہ ہو ا اور اگر مستقبل میں یہ دباؤ کسی معاشی یا تجارتی بائیکاٹ کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو ہندوستان کے لیے یہ ضروری ہو جائے گا کہ وہ امریکہ کے ساتھ کھڑا دکھائی دے۔ ویسے امریکہ کی جانب سے ٹیرف لاگو کرنے کی بات کو چھوڑ دیا جائے تو ہندوستان امریکہ کے ساتھ ہی کھڑا دکھائی دیتا ہے۔

Published: undefined

سستا تیل وقتی طور پر حکومت کے لیے ریلیف فراہم کرتا ہے، لیکن اگر روسی تیل پر عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ یا پابندیوں کا اثر ہوا، تو ہندوستان کو اچانک مہنگی درآمدات کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ اگرچہ روس سے تیل خریدنا ہندوستان کے لیے معاشی طور پر فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے اور ہندوستان کا دیرینہ ساتھی روس ہندوستان کے ساتھ ہر مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑا رہا ہے اس لئے اس وقت روس کے ساتھ ہی کھڑا ہونا ٹھیک نظر آ رہا ہے۔

روس سے تیل خریدنے کا فیصلہ ایک طرف ہندوستان کی عملی سوچ اور قومی مفاد کی عکاسی کرتا ہے، مگر دوسری طرف یہ فیصلہ عالمی سفارت کاری کے نازک توازن کو بھی چیلنج کر رہا ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے ہندوستان کے لئے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ایک جانب جہاں روس جیسے آزمودہ ملک کے ساتھ کھڑا ہونا ہے وہیں ایک طاقتور بلاک میں شمولت نے اسے پریشان کر رکھا ہے۔ یہ کہنا شاید درست ہوگا کہ ہندوستان نے روسی تیل خرید کر ’معاشی فہم‘ کا ثبوت دیا ہے، لیکن اس فہم کا اگلا امتحان ابھی باقی ہے، وہ امتحان جس میں صرف تیل کی قیمت نہیں، بلکہ عالمی سیاست کی حرارت بھی شامل ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined