فکر و خیالات

ہندوستان کا مزاج اور تہواروں کا پیغام

ہندوستان میں تہوار انسانیت اور محبت کا پیغام دیتے ہیں۔ رمضان الوداع ہو رہا ہے، ایسے میں ہمیں عید کی خوشیوں میں مظلومین کو بھی شامل کرنا چاہیے تاکہ اخوت اور بھائی چارہ فروغ پائے

<div class="paragraphs"><p>جامع مسجد دہلی میں عید کی نماز کا منظر/ فائل تصویر / وپن&nbsp;/ قومی آواز</p></div>

جامع مسجد دہلی میں عید کی نماز کا منظر/ فائل تصویر / وپن / قومی آواز

 

ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ ’جمعۃ الوداع‘ کو مسلمانان عالم بالخصوص ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہم اس دین اسلام کے فدائی اور پیروکار ہیں جس کا پیغام امن اور بھائی چارہ ہے، اسی لئے کثرت میں وحدت کے لئے مشہور وطن عزیز کی سرزمین بھی مسلمانوں کی امن پسندی کا کلمہ پڑھ رہی ہے لیکن وہیں دوسری طرف ایک مخصوص طبقہ جو ہر موقع پر اپنے آپ کو ’راشٹر بھگت‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسے یہ بات ہضم نہیں ہو پا رہی ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مسلمانوں کے کردار اور ان کی دانشمندی کی چہار سو تعریف ہو رہی ہے۔ انتہا پسند طبقہ مسلمانوں کی تعریف سُن کر پریشان ہونے سے زیادہ اپنی نفرت انگیزی کے ’منصوبوں‘ کی ناکامی پر خون کے آنسو رو رہا ہے۔

ان حالات میں اب انتہا پسندوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے اور آنکھ کان کھول کر دیکھنا چاہئے کہ ان کی شرپسندی کے سبب ملک کس سمت جا رہا ہے۔ انہیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ پچھلے کچھ سالوں میں عالمی سطح پر ہندوستان کوکس نظر سے دیکھا رہا ہے۔’ راشٹر بھگت‘ ہونا اچھی بات ہے مگر کسی کے لیے زمین تنگ کرنا بہت بُری بات ہے جس کا خمیازہ کوئی ایک شخص نہیں بلکہ پوری ریاست کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس روئے زمین پر ہندوستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جو کثیرالمذاہب اور کثیرالثقافت گلدستہ ہے، یہ ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے اس لئے اس گلدستے کو سرسبز و شاداب رکھنے کے لئے نفرت سے توبہ کر کے محبت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسل محبت کے ماحول میں پروان چڑھ سکے۔

Published: undefined

ہندوستان وہ عظیم ملک ہے جہاں کوئی مہینہ یا موسم تہوار سے خالی نہیں ہوتا۔ ایک تہوار ختم ہوتا ہے، دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ ہولی ختم ہوئی رمضان شروع، نوراتر، عید جیسے سینکڑوں تہوار ہیں جو ہمارے ملک کی عظیم وراثت ہیں۔ ہولی صرف رنگو کا تہوار نہیں ہے بلکہ یہ وہ منفرد تہوار ہے جس کے ذریعہ ہندوستان اپنی عظیم وراثت کی جھلک دکھاتا ہے اور اس پیغام کو عام کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ دنیا کا یہ واحد ملک ہے جہاں سیکڑوں قسم کی بولیاں اور ہزاروں رسم و رواج ہونے کے باوجود ہندوستان کی دھڑکن ایک ہے، جہاں لوگوں کے دلوں میں کوئی تفریق نہیں ہے، بھائی چارہ ہے، اخوت ہے اور امن و سکون ہے۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی کچھ لوگ اپنی نفرت کی دکان چلانے کے لیے ملک کی روح کو مجروح کرنے سے باز نہیں آتے۔

ان حالات میں ہم اس ماہ مبارک کو الوداع کہہ رہے ہیں جو صرف اور صرف عبادات کے لئے مخصوص ہے اور یقینی طور پر بندگان خدا نے رمضان المبارک کی معنویت اور ماہیئت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت خدا میں گزارا اور موقع بموقع اپنے کردار اور عمل سے بین مذاہب اتحاد اور یگانگت کو بھی فروغ دیا۔ اس دوران دنیا کے مظلومین کی حمایت اور ظالم کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کی ۔ مظلومین سے اظہار یکجہتی اور ہمدردی کے لئے مشہور ہندوستان کے امن پسندوں اور انصاف پسندوں نے جہاں مظالم کے شکار فلسطینیوں کی حمایت کی وہیں ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ نے والوں کی مذمت کی ،اس دوران بھی شرپسندوں کی ٹولی فعال رہی پھر بھی مسلمانوں نے مضبوطی سے امن کا دامن تھامے رکھا۔

Published: undefined

تہواروں کا مقصد صرف خوشیاں منانا ہی نہیں ایک دوسرے کے درمیان محبت کی فضا کو عام کرنا بھی ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ ان میں ایک دوسرے سے محبت کرنے کا جذبہ اور ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کا مزاج پیدا ہو سکے۔ ہماری یہ تہذیب رہی ہے کہ ہم آپس میں ساتھ مل جل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ ماضی کی اس وراثت اور اس تہذیب کو آج بھی جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ غور سے دیکھیے تو ہر تہوار کوئی نہ کوئی خاص پیغام لیکر آتا ہے لیکن ان سبھی تہواروں میں ایک بات عام ہے کہ وہ سب کے سب انسانیت، محبت اور اخوت کی بات کرتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ ہر تہوار کا خاص پیغام ہوتا ہے۔

ناگفتہ بہ ماحول سماج کو کمزور کرتا ہے، برے لوگوں کی تعداد بیحد کم ہوتی ہے پھر بھی ماحول پراگندہ ہو جاتا ہے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہندوستان کی فضا کو خوبصورت بنائے رکھنے کے لئے اس کی عظمت و وراثت کو بھی بنائے رکھا جائے۔ ماحول کو اتنا بہتر بنانا چاہئے جہاں سانس ل ہیں نے میں مزہ آئے، جہاں سماج کو دیکھ کر خوشی محسوس ہو، جہاں ہمارے لئے دوسرے کی آنکھوں میں آنسو آ جائے یعنی ہم ایک دوسرے کی مدد کرنے والے اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شرکت کرنے والے بنیں ۔ اخوت اور بھائی چارہ کافی اہم ہے جس کو سماج میں ہر قیمت پر لاگو کرنا یا بنائے رکھنا ضروری ہے۔ آج آپسی بھائی چارہ کمزور ہوا ہے، ایک دوسرے میں تفریق ہے، یہ جو کمیاں ہیں، ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

اب جبکہ رمضان اپنی تمام برکتوں کے ساتھ رخصت ہو رہا ہے اور ہم عید کا جشن منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، ایسے میں ہمیں دنیا کے تمام غربا، مساکین اور مظلومین کو بھی اپنی عید کی خوشیوں میں شامل کرنا چاہئے۔ لیکن وقت کا تقاضہ ہے کہ جشن ضرور منائیں مگر ان مظلومین کے بھی آنسو پونچھیں جو خوشی منانا ہی بھول گئے ہیں۔ ہم رمضان کے اس الوداعی دور میں دیکھ رہے ہیں کہ انسان اپنے ہی خون میں رنگے عید کی مبارک باد کیسے دے سکتے ہیں جب ہمارے اپنے ہی بھائی نفیس، ریشمی پوشاک میں سجے مہنگے خوشبویات میں بسے ایک دوسرے میں گلے لگ کر عید کی مبارک باد دیتے، رب العزت کی جانب سے عطا کیے گئے اس پرمسرت موقع کو منا رہے ہیں تو کس کے لیے اور کیوں؟

یہ موقعہ یہ خوشی، یہ تہوار عید الفطر تو ہمیں ہمارے رب کی جانب سے عطا کیا گیا ہے، ایسا مذہب ایسے دین کے علم بردار ہیں جو ہمیں مساوات، رواداری، اخوت، بھائی چارگی کے پیغام کو سکھاتا ہے، سمجھاتا ہے اور عمل کرنے پر زور دیتا ہے۔ پر یہ کیسی بے بسی ہے کہ ہم اسی دین کے ماننے والے اپنے رب کے عطا کردہ اس تہوار کو اپنے ہی بھائیوں کی بے کسی، مجبوری، دکھ، اذیت اور تکلیفوں کو دیکھنے سمجھنے کے بعد نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ ہمارا رب ہمارے اندر، باہر، حال، مستقبل، ماضی سب سے باخبر ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے وہ بھی جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ عید سعید کے اس پرنور موقع پر ہم اپنے تمام بہن بھائیوں کے لیے دعا گو ہیں کہ وہ اس عید کے اصل پیغام کو سمجھیں، اس کی روح کو جانیں کہ یہ ہمارے رب کی جانب سے دی گئی خوشیوں کا دن ہے تو کیا ہم اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت اپنی خوشی کی دعاؤں میں اپنے بہن بھائیوں کو یاد رکھ کر کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined