ہماچل میں قدرتی آفات کے حالات کا جائزہ لیتے وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو / آئی اے این ایس
ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو پچھلے تین برسوں سے قدرتی آفات کے لگاتار سلسلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ نئی دہلی سے انہیں ہر بار مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے، جس کی وجہ سے ریاست کو اپنے محدود وسائل پر ہی انحصار کرتے ہوئے بچاؤ، امداد اور بحالی کے کام انجام دینا پڑ رہے ہیں۔ مگر یہ راستہ نہایت دشوار ہے کیونکہ تباہی بڑھتی جا رہی ہے۔
جون کے آخر میں منڈی ضلع کی وادی سراج میں بادل پھٹنے کے بعد شدید تباہی آئی۔ سکھو دہلی پہنچے اور انہوں نے وزیر خزانہ نرملا سیتارمن سے قرض کی حد بڑھانے کی اپیل کی، وزیر داخلہ امت شاہ کو نقصانات کی تفصیل پیش کی اور 16ویں مالیاتی کمیشن کے سربراہ اروِند پنگڑھیا سے ’گرین فنڈ‘ بنانے کی درخواست کی تاکہ پہاڑی ریاستوں کو فوری مدد مل سکے۔ انہوں نے ہر مرکزی دروازے کو کھٹکھٹایا لیکن ہاتھ کچھ نہ آیا۔
Published: undefined
دوسری غیر بی جے پی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کی طرح سکھو کا دہلی میں ’نرم گرم‘ استقبال ضرور ہوا، مگر مالی امداد کی فائلیں یا تو لٹکا دی گئیں یا پھر بہت تاخیر سے ناکافی رقوم منظور ہوئیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قدرتی آفات میں بھی مرکز سیاسی وابستگی دیکھ کر فیصلے کرتا ہے؟ اعداد و شمار یہی ظاہر کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر، جوشی مٹھ (اتراکھنڈ) میں 2023 کی آفت کو لیں۔ زمین میں دراڑیں پڑیں، لوگوں کو گھر چھوڑنے پڑے، حکومت نے مرمت و بازآبادکاری کی اسکیم شروع کی اور مرکز سے 2943 کروڑ کی مدد مانگی، بعد میں رقم 3500 کروڑ کی گئی۔ اس مطالبے کے دو سال بعد جون 2025 میں مرکز نے 1658 کروڑ کی منظوری دی، یعنی اسے 56 فیصد مدد ملی۔
Published: undefined
اسی سال، ہماچل میں آئی قدرتی آفت کہیں زیادہ مہلک تھی۔ کئی گاؤں برباد، پل اور سڑکیں تباہ، بڑی تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ ریاست نے 9042 کروڑ کی مدد مانگی لیکن صرف 2006 کروڑ یعنی صرف 22 فیصد منظور کیے گئے۔ ایسا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ مرکز کی پالیسی میں غیر جانبداری نہیں بلکہ سیاسی تعصب شامل ہے۔
یہ سچ ہے کہ دو آفات کا موازنہ کرنا آسان نہیں کیونکہ شدت، رقبہ، اثر کی مدت اور متاثرہ آبادی مختلف ہو سکتی ہے لیکن مسئلہ اس رویے کا ہے جو مرکز اختیار کرتا ہے یعنی بی جے پی حکومت والی ریاستوں کو کشادہ دل امداد اور غیر بی جے پی ریاستوں کو نظرانداز کرنا۔ یہ فرق قدرتی آفات جیسے انسانی بحران میں بھی سیاست کی مداخلت کو بے نقاب کرتا ہے۔
Published: undefined
2023 میں ہماچل میں آنے والی تباہی کو گزشتہ 75 برسوں میں ریاست کی سب سے شدید قدرتی آفت مانا گیا۔ موسلادھار بارش، لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب اور بادل پھٹنے کے واقعات نے سینکڑوں زندگیاں چھین لیں۔ 550 سے زائد افراد جاں بحق، 12 ہزار سے زائد گھر تباہ، سڑکیں، پل، پانی، بجلی اور دیگر بنیادی ڈھانچے برباد۔ ریاست نے تخمینہ لگایا کہ 12000 کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔
مرکز سے 9042 کروڑ مانگے گئے، مگر کئی ماہ بعد، 12 دسمبر 2023 کو، محض 633.73 کروڑ روپے منظور ہوئے۔ اس وقت تک ریاست خود اپنے خزانے سے 4493.43 کروڑ روپے خرچ کر چکی تھی۔ یہ خطیر رقم ریاست کے کمزور بجٹ پر بھاری پڑی۔ ایک وقت تو ایسا آیا کہ ملازمین کو تنخواہیں تاخیر سے دی گئیں، پنشن اور بھی زیادہ تاخیر سے ملی۔
Published: undefined
2024 میں کسی طرح ان مالیاتی حالات پر قابو پایا گیا مگر اس سال ایک اور شدید آفت نے ریاست کو ہلا کر رکھ دیا۔ منڈی ضلع میں سراج وادی اور آس پاس بادل پھٹنے سے 100 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ 248 سڑکیں تباہ یا بند، درجنوں پل گر گئے، 994 بجلی کے ٹرانسفارمر خراب، پانی کی سپلائی منقطع ہو گئی۔ متاثرہ علاقوں میں فوری راحت پہنچانا سب سے مشکل کام ہے۔
ریاستی حکومت نے راحت کیمپ لگائے، متاثرہ خاندانوں کو 5000 روپے فی کس ہنگامی امداد دی، اور جن کے گھر مکمل تباہ ہو گئے انہیں نئے مکان بنانے کے لیے سات لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا گیا۔ مگر سب جانتے ہیں کہ یہ سب ناکافی ہے۔ اصل چیلنج انفراسٹرکچر کی بحالی ہے اور اس کے لیے بھاری رقم درکار ہے جو ریاست کے لیے اکیلے اٹھانا ممکن نہیں۔
Published: undefined
کیا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ریاستی حکومت کو وقت پر مرکز سے مناسب مالی مدد مل جائے گی؟ کم از کم ماضی کا تجربہ تو اس کی یقین دہانی نہیں کراتا۔ یہاں 2023 میں ریاست میں آنے والی قدرتی آفت کو یاد کرنا ضروری ہے۔ یہ اس خطے میں پچھلے 75 برس کی سب سے بڑی آفت تھی۔ برسات کے موسم میں بادل پھٹنے، سیلاب اور زمین کھسکنے کے واقعات نے کئی علاقوں میں شدید تباہی مچائی۔ 550 سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 12 ہزار سے زیادہ مکانات یا تو مکمل تباہ ہو گئے یا انہیں شدید نقصان پہنچا۔ انفراسٹرکچر کو جس پیمانے پر نقصان ہوا، اس کی حالیہ برسوں میں کوئی بڑی مثال نہیں ملتی۔
تخمینہ لگایا گیا کہ مجموعی نقصان 12 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا ہے۔ ریاستی حکومت نے اس کی تلافی کے لیے مرکز سے 9042 کروڑ روپے کی مدد مانگی تاکہ معیشت اور عوامی زندگی کو دوبارہ پٹری پر لایا جا سکے۔ کئی مہینوں کے بعد 12 دسمبر 2023 کو نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فنڈ کی طرف سے صرف 633.73 کروڑ روپے کی مدد کی منظوری دی گئی، جبکہ اس سے کہیں زیادہ رقم ریاستی حکومت پہلے ہی خرچ کر چکی تھی۔
Published: undefined
صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے خود اپنے بجٹ سے 4493.43 کروڑ روپے کی رقم آفت سے نمٹنے پر خرچ کی۔ ہماچل جیسے دوسرے پہاڑی علاقوں کی معاشی حالت کے تناظر میں یہ رقم بہت بڑی تھی۔ اس کا اثر ریاست کی کمزور مالی حالت پر بھی پڑا۔ اس سال کے آغاز میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب سرکاری ملازمین کو ماہ کی پہلی تاریخ کو ملنے والی تنخواہ پانچ تاریخ کو دی گئی، جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اس سے بھی تاخیر سے ملی۔
ان حالات پر تو کسی نہ کسی طرح قابو پا لیا گیا، لیکن پورے دو برس کی لگاتار مانگ اور یاد دہانیوں کے بعد بھی مرکز نے قدرتی آفت کے نام پر جتنی مالی مدد مانگی گئی تھی، اس کا صرف 22 فیصد ہی ہماچل پردیش کو دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined