فکر و خیالات

عدالتوں کا خطرناک رجحان، زیادتی کا حل شادی نہیں

کئی فیصلوں میں زیادتی کے ملزم کو متاثرہ سے شادی کرنے پر جیل سے رہائی دی گئی، جو انصاف کے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ رجحان متاثرہ کے لیے اذیت ناک ہے اور مجرموں کو سزا سے بچ نکلنے کا راستہ فراہم کرتا ہے

<div class="paragraphs"><p>عدالتی فیصلہ، علامتی تصویر / آئی اے این ایس</p></div>

عدالتی فیصلہ، علامتی تصویر / آئی اے این ایس

 

نبیل کولوتھومتھوڈی

الہ آباد ہائی کورٹ نے 20 فروری 2025 کو ایک متنازعہ فیصلہ سنایا، جس میں 26 سالہ زیادتی کے ملزم نریش مینا کو اس شرط پر ضمانت دے دی گئی کہ وہ تین ماہ کے اندر متاثرہ سے شادی کر لے گا۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ عدالت نے اس طرح کا فیصلہ دیا ہو۔ اکتوبر 2023 میں بھی ایک شخص کو، جس نے 15 سالہ لڑکی کا ریپ کر کے اسے حاملہ کر دیا تھا، متاثرہ سے شادی کرنے پر ضمانت دی گئی تھی۔ یہ ایک تشویشناک رجحان ہے جو مجرموں کو سزا سے بچ نکلنے کا لائسنس فراہم کرتا ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق، 2022 میں ہندوستان میں زیادتی کے 31,982 کیسز درج ہوئے، لیکن 2018 سے 2022 کے درمیان ان کیسز میں سزا کی شرح صرف 27-28 فیصد رہی۔ ماہرین کے مطابق، ناقص پولیس تفتیش اور قانونی نظام کی سستی مجرموں کے سزا سے بچ نکلنے میں مدد دیتی ہے۔

Published: undefined

روئٹرز کے مطابق، معروف وکیل ربیکا ایم جون کہتی ہیں کہ ججوں میں سخت سزائیں دینے سے ہچکچاہٹ بھی ایک وجہ ہے، کیونکہ زیادتی کے جرم میں کم از کم سزا 10 سال قید سے لے کر سزائے موت تک ہو سکتی ہے۔ ایک تو پہلے ہی زانی سزا سے بچ نکلتے تھے، اس پر عدالتوں نے متاثرہ کو زانی سے شادی کرنے پر مجبور کرنے کے معاملوں کی وجہ سے بھی اس طرح کے کیسز میں اضافہ ہوا۔

تلخ فیصلے

2021 میں اُس وقت کے چیف جسٹس شرد بوبڑے نے ایک سرکاری ملازم، جس نے نابالغ سے زیادتی کی تھی، کو مشورہ دیا کہ اگر وہ متاثرہ سے شادی کر لے تو سزا سے بچ سکتا ہے۔ یہ تبصرہ عوامی سطح پر شدید مذمت کا باعث بنا۔ 2020 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے زیادتی کے ایک ملزم کو اس شرط پر ضمانت دی تھی کہ وہ متاثرہ سے راکھی بندھوائے گا، جسے بعد میں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا۔

Published: undefined

2019 میں کیرالہ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ زیادتی کے مقدمے کو صرف اس صورت میں خارج کیا جا سکتا ہے، جب ملزم متاثرہ سے شادی کر لے۔ 2024 میں کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک 23 سالہ نوجوان کو متاثرہ سے شادی کے وعدے پر ضمانت دی تاکہ ان کے بچے کو ’بدنامی‘ سے بچایا جا سکے، حالانکہ لڑکی کے ساتھ زیادتی اس وقت ہوئی تھی جب وہ 16 سال کی تھی۔

زیادتی کوئی معاہدہ نہیں

زیادتی کے متاثرین پر پہلے ہی ناقابل بیان صدمہ ہوتا ہے، ایسے میں مجرم سے شادی پر مجبور کیا جانا ان کے لیے مزید اذیت ناک ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم 4000 خواتین کارکنان اور شہریوں نے سابق چیف جسٹس بوبڑے کو کھلا خط لکھ کر اس روش پر سوال اٹھایا تھا۔ خط میں کہا گیا تھا کہ زیادتی کا حل شادی نہیں بلکہ مجرموں کو سزا دینا ہے۔

Published: undefined

خط میں یہ بھی کہا گیا تھا، ’’آپ کے الفاظ دیگر عدالتوں، ججوں، پولیس اور دیگر تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہندوستان میں خواتین کے لیے انصاف حاصل کرنا ان کا آئینی حق نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لڑکیوں/خواتین کو خاموش رہنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ کئی دہائیوں بعد یہ صورتِ حال بنی تھی کہ خواتین ایسے معاملات کو سامنے لانے لگی تھیں۔ اس کے علاوہ، زیادتی کرنے والوں کو یہ پیغام جاتا ہے کہ شادی زیادتی کا لائسنس ہے؛ اور اس لائسنس کے ذریعے، زیادتی کرنے والا اپنے جرم کو بعد میں جائز اور قانونی بنا سکتا ہے۔‘‘

خط میں یہ بھی کہا گیا کہ، ’’زیادتی کا شکار خاتون کو اس کے مجرم سے شادی کا مشورہ دینا، دراصل اسے 'زندگی بھر زیادتی' کی سزا دینا ہے۔ (ہندوستان ان 30 ممالک میں شامل ہے جہاں ازدواجی زیادتی کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔) زیادتی کی متاثرہ خواتین شدید ذہنی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں، کئی خودکشی کی کوشش کرتی ہیں۔ عدالتوں کے ایسے فیصلے متاثرہ کو اس کے آئینی حقوق سے محروم کر دیتے ہیں۔ شرمندگی، سماجی بائیکاٹ اور اس سودے سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہونے کے سبب وہ زندگی بھر اذیت میں مبتلا رہتی ہیں۔‘‘

Published: undefined

خط میں یہ بھی کہا گیا، ’’زیادتی کرنے والوں کو ان کے جرم پر سزا دینے اور متاثرین کو قانونی اور نفسیاتی مدد فراہم کرنے کے بجائے، 'اپنے مجرم سے شادی کر لو' کا پیغام دینا دراصل یہ بتانا ہے کہ انصاف کے بجائے خاتون کی 'عزت' کو ترجیح دی جا رہی ہے۔" پونے میں 2021 کا ایک واقعہ اس کی دل دہلا دینے والی مثال ہے، جہاں ایک نابالغ لڑکی نے اپنے زیادتی کرنے والے روہت راجو پوار سے شادی کے لیے مجبور کیے جانے کے بعد خودکشی کر لی۔ یہ واقعہ ایسے عدالتی فیصلوں کے تباہ کن نتائج کو ظاہر کرتا ہے۔

سپریم کورٹ کا واضح موقف

سپریم کورٹ نے ایسے عدالتی رجحان پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ زیادتی جیسے جرم میں کسی بھی سمجھوتے کی گنجائش نہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ زیادتی کے ملزم کے شادی کے وعدے پر ضمانت دینا غلط ہے اور اس سے عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے۔

Published: undefined

عدالت وہ جگہ ہے جہاں انصاف کی توقع کی جاتی ہے، لیکن جب عدالتیں مجرموں کو شادی کے نام پر سزا سے بچنے کا موقع دیتی ہیں تو یہ پورے قانونی نظام پر سوال اٹھاتا ہے۔ ایسے فیصلے نہ صرف متاثرہ کی زندگی تباہ کرتے ہیں بلکہ مجرموں کے حوصلے بھی بلند کرتے ہیں۔

عدالتی نظام میں صنفی حساسیت، قانونی وضاحت اور متاثرین کے لیے نفسیاتی مدد کو یقینی بنائے بغیر زیادتی کے متاثرین کو انصاف نہیں مل سکتا۔ اس کی مثال بھنوری دیوی کا کیس ہے، جس میں ایک اجتماعی زیادتی کے باوجود ملزمان کو سزا نہیں دی گئی۔ تاہم، اس مقدمے نے بعد میں خواتین کے لیے جنسی استحصال کے خلاف قوانین کی راہ ہموار کی۔

ایسے معاملات میں سخت سزاؤں اور عدالتی اصلاحات کے بغیر، زیادتی کے متاثرین کے لیے انصاف کا حصول مزید مشکل ہوتا جائے گا۔

(نبیل کولوتھومتھوڈی ایک رکن پارلیمنٹ کے پارلیمانی سکریٹری اور دہلی یونیورسٹی کی لا فیکلٹی کے سابق طالب علم ہیں اور یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined