فکر و خیالات

مذہبی رواداری سے فرقہ وارانہ تقسیم تک، سماج کی بدلتی تصویر...عمران خان

کبھی مذہبی ہم آہنگی کی مثال سمجھا جانے والا ملک اب فرقہ وارانہ تقسیم کی زد میں ہے۔ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ سماج میں نفرت کو ہوا دی جا رہی ہے لیکن کچھ مثبت پہلو بھی سامنے آئے ہیں

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

 

مغربی اتر پردیش کے ضلع مظفرنگر کا تاریخی قصبہ میرانپور (جسے سید میراں خاں کے نام پر بسایا گیا) صدیوں سے گنگا جمنی تہذیب کی علامت رہا ہے۔ یہاں ہندو مسلم بھائی چارے کی کئی مثالیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ اس قصبے کی ایک منفرد پہچان یہ بھی ہے کہ یہاں بازار کی ہفتہ واری چھٹی جمعہ کو ہوتی ہے اور اس روایت کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔

ماضی میں میرانپور میں بنیا برادری کے بڑے بڑے کارخانے قائم تھے، جہاں گنے سے کھانڈ (چینی) تیار کرنے والے کرشر بنائے جاتے تھے۔ ان کارخانوں میں زیادہ تر مزدور، سپروائزر اور مستری مسلمان تھے، جو مختلف شہروں سے روزگار کے لیے یہاں آتے تھے۔ جمعہ کے روز بڑی تعداد میں مسلمان نماز کے لیے وقفہ یا چھٹی لیتے تھے۔ یہ دیکھتے ہوئے ہندو مالکان نے فیصلہ کیا کہ ہفتہ واری چھٹی جمعہ کو ہی رکھی جائے، اور آج بھی قصبے میں اسی روایت پر عمل کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

اس بھائی چارے کی ایک اور مثال یہ تھی کہ چونکہ مسجد کافی دور تھی اور مسلمان جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے خواہش مند تھے، تو ایک ہندو صنعتکار نے اپنی زمین پر ایک مسجد تعمیر کرائی۔ یہ چھوٹی سی مسجد آج بھی مین بازار میں موجود ہے، جو اس قصبے کی مذہبی ہم آہنگی کی روشن مثال ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ کبھی یہاں بھائی چارے اور یکجہتی کو فوقیت دی جاتی تھی۔

ماضی میں میرانپور گنگا جمنی تہذیب کی ایک روشن مثال تھا، مگر وقت کے ساتھ فرقہ وارانہ تقسیم کی جڑیں یہاں بھی مضبوط ہونے لگیں۔ حالیہ واقعات نے اس بدلتی تصویر کو مزید واضح کر دیا ہے۔

میرانپور میں ایک ننھی بچی، جو نرسری کی طالبہ ہے، اپنی مسلم سہیلی کے ساتھ کھیلنے جاتی تھی۔ عید کے دن وہ اپنی سہیلی کے گھر گئی اور کئی گھنٹے خوشی خوشی گزارے۔ مگر جب وہ لوٹ رہی تھی تو محلے کے چند 8 سے 10 سال کے بچوں نے اسے روک کر پوچھا، ’تو ہندو ہے یا مسلمان؟‘ وہ چونک گئی، مگر اعتماد سے بولی، ’میں تو ہندو ہوں۔‘ اس پر ایک لڑکے نے فوراً اگلا سوال کیا، ’تو پھر مسلمانوں کے گھر کیوں جاتی ہے؟‘ یہ سوال سنتے ہی وہ خاموش ہو گئی اور جلدی سے اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی۔

Published: undefined

یہ حیران کن تھا کہ اتنی کم عمر کے بچے بھی مذہب کی بنیاد پر تقسیم کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے گھرانے تو بظاہر مسلمانوں سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں، ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شریک بھی ہوتے ہیں، پھر یہ سوال کہاں سے آیا؟ کیا گھروں میں ایسی باتیں ہوتی ہیں، یا معاشرتی ماحول نے انہیں ایسا بنا دیا ہے؟

اسی محلے میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ ایک مسلم خاتون، جو اپنے ہندو پڑوسیوں کے یہاں برسوں سے عید کی شیر قریبی تعلقات کے ناتے لے جاتی تھیں، اس بار بھی روایتی مٹھائی لے کر گئیں۔ ان کے سسر اور ہندو فیملی کے سربراہ نہ صرف گہرے دوست تھے بلکہ کاروباری شراکت دار بھی رہے تھے۔ یہی خاندان برسوں پہلے انہیں اس علاقے میں بسنے کا موقع دینے والوں میں شامل تھا۔ مگر اس بار دروازے پر ہی اس نوجوان بیٹے نے، جو اعلی تعلیم یافتہ ہے اور ایک پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ میں ایم سی اے اور بی سی اے کے طلبہ کو پڑھاتا ہے، بے تاثر لہجے میں کہا، ’’پاپا اب نہیں رہے، وہی آپ کی کھیر کھاتے تھے، یہاں اب کوئی نہیں جو اسے کھائے۔ واپس لے جائیں۔‘‘ خاتون خاموشی سے واپس لوٹ آئیں۔

Published: undefined

یہ واقعہ اس بدلتے ہوئے ماحول کا آئینہ ہے۔ وہ نوجوان اسی بنیا برادری سے تعلق رکھتا ہے، جس کے آبا و اجداد نے کبھی اپنے مسلمان ملازمین کے لیے اپنی زمین پر مسجد تعمیر کرائی تھی۔

سنبھل میں تاریخی جامع مسجد کو ہندو برادری کی جانب سے مندر قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ مسجد کے سروے کے دوران حالات کشیدہ ہو گئے اور بڑے پیمانے پر تشدد بھڑک اٹھا، جس میں کئی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کے بعد سے سنبھل مسلسل خبروں میں رہا ہے۔

یہاں ایک نیا سلسلہ یہ شروع ہوا کہ اگر کسی مسلم محلے میں کوئی پرانا یا ویران مندر موجود ہے، تو اس پر دعویٰ کیا جانے لگا کہ مسلمانوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ شہر میں یہ بھی کہا گیا کہ 'ہندو مقدس مقامات' کی نشاندہی ہو رہی ہے اور کئی مقامات دریافت کر لیے گئے ہیں۔

Published: undefined

یہی نہیں، ہولی کے موقع پر سنبھل کی کئی مساجد کو ترپال سے ڈھک دیا گیا۔ پولیس کی جانب سے عید سے قبل اعلان کیا گیا کہ "مسلمانوں کو اگر ہولی کی گجیا کھانی ہے تو ہولی پر کھائیں، تبھی عید پر سوئیاں کھلانے کی اجازت ہوگی۔" ایک اور ہدایت میں کہا گیا کہ "سڑکوں پر نماز پڑھنے پر پابندی ہوگی، اور اگر کسی نے خلاف ورزی کی تو سخت کارروائی ہوگی۔"

سنبھل کی طرز پر میرانپور میں بھی ایک قدیم مندر کو لے کر تنازع کھڑا کر دیا گیا۔ محلہ مشترک میں واقع یہ مندر دراصل ایک برہمن خاندان کی نجی ملکیت تھا، جو 35 سال قبل اپنی زمینیں فروخت کر کے یہاں سے منتقل ہو گیا تھا۔ مندر ویران رہا، مگر کسی نے اس پر قبضہ نہیں کیا۔

Published: undefined

میرانپور کا وہ مندر جسے لے کر ماحول کشیدہ کرنے کی کوشش کی گئی

حال ہی میں کچھ عناصر نے دعویٰ کیا کہ ’مسلمانوں نے مندر پر قبضہ کر لیا ہے اور اب اس کی از سر نو تعمیر کی جائے گی۔‘ حالات اس قدر کشیدہ ہو گئے کہ ہندو برادری کے لوگ بڑی تعداد میں وہاں جانے والے تھے۔ کشیدگی کے باعث بازار بند ہو گئے۔ پولیس نے مسلمانوں سے کہا کہ ’کسی بھی اشتعال انگیزی کا جواب نہ دیں اور اپنی گلیوں کی حفاظت کریں۔‘

پولیس کو معلوم تھا کہ باہر سے لوگ لا کر پتھراؤ کرایا جا سکتا ہے تاکہ فساد بھڑکایا جا سکے۔ مگر یہی واقعہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اگر پولیس چاہے تو کسی بھی فساد کو ہونے سے روک سکتی ہے۔

میرٹھ میں پولیس نے اعلان کر دیا تھا کہ اگر کوئی مسلمان عید کی نماز سڑک پر پڑھے گا تو اس کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ منسوخ کر دیا جائے گا۔ عید کے دن جب عیدگاہ نمازیوں سے بھر گئی تو کسی کو باہر نماز نہ پڑھنے دی گئی، حتیٰ کہ پولیس نے راستے بھی بلاک کر دیے، جس سے لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

Published: undefined

یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ایک مخصوص طبقے کے لیے قوانین سخت کیے جا رہے ہیں، جبکہ دوسرے فریق کے لیے ایسی کوئی پابندیاں نظر نہیں آتیں۔

میرٹھ میں پولیس نے اعلان کر دیا تھا کہ اگر کوئی مسلمان عید کی نماز سڑک پر پڑھے گا تو اس کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ منسوخ کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد عید کے دن جب عیدگاہ بھر گئی تو کسی کو باہر نماز نہ پڑھنے دی گئی۔ پولیس نے راستے بھی بلاک کر دیے، جس سے نمازیوں کو شدید پریشانی ہوئی۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک مخصوص طبقے کے لیے قوانین کس طرح سخت کیے جا رہے ہیں۔

ہولی کے موقع پر میرانپور میں کچھ نوجوانوں نے ایک سڑک پر انگریزی میں ’السام‘ لکھا ، قابل اعتراض علامت بنائی اور اشتعال انگیز نعرے کرتے ہوئے ہڑدنگ مچایا۔ اس کا مقصد ایک مخصوص طبقے کو اکسانا تھا۔ مقامی لوگوں نے پولیس سے شکایت کی، مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کے لیے تہواروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کئی مواقع پر یہ دیکھا گیا گیا کہ تیز آواز میں ڈی جے کے ساتھ یاترا نکالی جاتی ہے اور خاص طور پر مسجد کے سامنے ٹھہر کر قابل اعتراض گانے بجائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد مائیک سے اشتعال انگیز نعرے بازی کی جاتی ہے اور مسجد کی طرف اشارے کرتے ہوئے سیلفیاں لی جاتی ہیں، جنہیں سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

عید کے موقع پر میرانپور میں بازار کی سجاوٹ کا منظر

اس سارے ماحول میں ایک مثبت پہلو بھی سامنے آیا۔ اس سال پہلی بار میرانپور کے مسلم علاقوں کو عید کے موقع پر سجایا گیا لیکن سجاوٹ مین بازار کے شروع میں روک دی گئی، جہاں زیادہ تر ہندو دکان دار ہیں۔ یہ بات کچھ ہندو بھائیوں کو ناگوار گزری۔ انہوں نے کہا، ’دیوالی پر جب پورا بازار سجایا جاتا ہے تو عید پر کیوں نہیں؟‘ چنانچہ، ہندو برادری نے خود چندہ کیا اور پورے مین بازار کو بھی لائٹوں سے روشن کر دیا۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ سب کچھ ختم نہیں ہوا، آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر جینا چاہتے ہیں۔

میرانپور جیسے قصبے، جو کبھی اتحاد اور بھائی چارے کی علامت ہوا کرتے تھے، اب آہستہ آہستہ فرقہ واریت کی زد میں آ رہے ہیں۔ مگر کچھ مثبت مثالیں ہمیں امید دلاتی ہیں کہ شاید سب کچھ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم تقسیم کے راستے پر چلیں گے یا اتحاد کے؟

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined