فکر و خیالات

سی این جی بھی محفوظ ایندھن نہیں، دہلی کی فضا میں نائٹروجن آکسائیڈ کا خطرہ

سی این جی کو محفوظ ایندھن سمجھا جاتا رہا مگر دہلی میں نائٹروجن آکسائیڈ کی بڑھتی سطح نے اس تصور کو چیلنج کر دیا ہے۔ سی این جی گاڑیوں سے نکلنے والی گیسیں صحت اور ماحول دونوں کے لیے سنگین خطرہ بن رہی ہیں

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

 

اسے بجا طور پر صحت کا ہنگامی بحران کہا جا سکتا ہے۔ 13 دسمبر کو گریپ-4 نافذ کر دیا گیا، یعنی ان تمام اسباب پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں جنہیں اب تک سانسوں میں زہر گھولنے کی ممکنہ وجوہات قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس کے باوجود 26 دسمبر کی صبح دہلی این سی آر کے کئی علاقوں میں ہوا کا معیار اشاریہ 400 سے تجاوز کر گیا۔ یہ صورتِ حال صاف ظاہر کرتی ہے کہ یا تو ہم فضائی آلودگی کے اصل اسباب کو درست طور پر سمجھنے میں ناکام ہیں یا پھر ایسے سخت فیصلے کرنے سے گریزاں ہیں جن سے واقعی حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔

کوئی دو دہائیاں قبل دہلی کو کالے دھوئیں سے نجات دلانے کے لیے جس سی این جی کو رام بان حل کے طور پر پیش کیا گیا تھا، آج وہی ایندھن نائٹروجن آکسائیڈ کے ذریعے آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ پورا نظام عوام کو پی ایم کے اعداد و شمار سے خوف زدہ رکھتا ہے اور اس کے متبادل کے طور پر سی این جی گاڑیوں کو فروغ دیتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دہلی میں نائٹروجن آکسائیڈ کی مجموعی آلودگی کا تقریباً 81 فیصد حصہ صرف ٹرانسپورٹ سیکٹر، یعنی گاڑیوں سے آتا ہے۔

Published: undefined

ان دنوں دہلی کی فضا میں ایک عجیب قسم کا زہر گھلا ہوا ہے۔ عجیب اس لیے کہ جس ایندھن کو محفوظ قرار دے کر اپنایا گیا تھا، آج وہی دم گھونٹنے کا سبب بن رہا ہے۔ مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کی تازہ دستاویزات کے مطابق، سات برس بعد دہلی میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (این او ٹوکی سطح میں دوبارہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے مقرر کردہ 10 مائیکروگرام فی مکعب میٹر کی محفوظ حد کے مقابلے میں اس سال یہ مقدار 47 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک پہنچ چکی ہے، جو نہایت تشویشناک ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2018 میں این او ٹو کی سالانہ اوسط 48 تھی، جو 2023 میں کم ہو کر 35 تک آئی مگر 2024 میں یہ دوبارہ 43 اور 2025 میں 47 تک جا پہنچی۔ یہ اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسئلہ وقتی نہیں بلکہ ساختی نوعیت اختیار کر چکا ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہوا میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔ سی پی سی بی کے مطابق این او ٹو میں اضافے کی بنیادی وجہ سی این جی گاڑیوں سے خارج ہونے والی کیمیائی گیسیں ہیں۔ ایسی فضا میں سانس لینے میں دشواری، سر کا بھاری پن اور پھیپھڑوں پر براہِ راست منفی اثرات سامنے آتے ہیں۔

Published: undefined

دہلی میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے سارا زور پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 تک محدود رہا، اور اسی مقصد کے تحت سی این جی گاڑیوں کو فروغ دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کالے دھوئیں کی جگہ ایک ایسا غیر مرئی دھواں انسانی زندگی کے لیے دشمن بن گیا، جو نظر تو نہیں آتا مگر اس کے اثرات کہیں زیادہ مہلک ہیں۔

جولائی 2021 میں شائع ہونے والی رپورٹ ’بہائنڈ دی اسموک اسکرین‘ میں پہلے ہی خبردار کیا جا چکا تھا کہ دہلی سمیت ملک کے کئی بڑے شہروں میں نائٹروجن آکسائیڈ کی مقدار مسلسل بڑھ رہی ہے۔ گرین پیس انڈیا کے سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق اپریل 2020 کے مقابلے اپریل 2021 میں دہلی میں این او ٹو کی سطح میں 125 فیصد تک اضافہ ہوا۔

اگرچہ دیہی علاقوں میں نائٹروجن آکسائیڈ کے اضافے کی وجوہات میں زرعی کھادوں کا بے تحاشا استعمال اور مویشی پروری شامل ہیں، مگر بڑے شہروں میں اس کی اصل وجہ وہی ایندھن ہے جسے ’گرین‘ اور ’محفوظ‘ کہا جاتا ہے۔ نائٹروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے بننے والی یہ گیسیں انسانی صحت اور ماحول کے لیے اتنی ہی نقصان دہ ہیں جتنی کاربن مونو آکسائیڈ۔

Published: undefined

یورپ میں ہونے والی تحقیقات بتاتی ہیں کہ سی این جی گاڑیوں سے خارج ہونے والے نینو میٹر سائز کے نہایت باریک ذرات کینسر، الزائمر اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں اس وقت سی این جی کو محفوظ ایندھن قرار دینے کے تصور پر سنجیدہ تحقیق جاری ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یورو-6 معیار کی سی این جی گاڑیوں کے لیے بھی ذرات کے اخراج کی کوئی واضح حد مقرر نہیں کی گئی۔

تحقیقی نتائج کے مطابق سی این جی سے خارج ہونے والے 2.5 نینو میٹر کے انتہائی باریک مگر مہلک ذرات، پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کے مقابلے میں 100 سے 500 گنا زیادہ ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر شہری ٹریفک میں، جہاں گاڑیاں سست رفتاری سے چلتی ہیں اور بھارت جیسے شدید گرمی والے ماحول میں، سی این جی گاڑیاں بھی اتنی ہی جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں جتنی ماضی میں ڈیزل بسیں تھیں—فرق صرف اتنا ہے کہ بڑے کاربن ذرات کم نظر آتے ہیں۔

یہ گاڑیاں فی کلومیٹر 20 سے 66 ملی گرام امونیا بھی خارج کرتی ہیں، جو ایک خطرناک گرین ہاؤس گیس ہے اور اوزون تہہ کو نقصان پہنچانے میں کردار ادا کرتی ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ سی این جی سے ذراتی مادہ 80 فیصد اور ہائیڈروکاربن 35 فیصد کم خارج ہوتے ہیں، مگر اس کے بدلے کاربن مونو آکسائیڈ کا اخراج پانچ گنا بڑھ جاتا ہے، جو اسموگ اور زمینی سطح کی اوزون کے لیے نہایت مہلک ہے۔

Published: undefined

نائٹروجن آکسائیڈ کی زیادہ مقدار براہِ راست انسانی نظامِ تنفس کو متاثر کرتی ہے، پھیپھڑوں کی صلاحیت کم کرتی ہے اور تیزابی بارش کا سبب بن سکتی ہے۔ سی پی سی بی کی 2011 کی ایک تحقیق پہلے ہی یہ واضح کر چکی ہے کہ سی این جی بغیر ماحولیاتی نقصانات کے نہیں ہے، خاص طور پر ریٹروفٹڈ سی این جی انجن میتھین کے اخراج میں 30 فیصد اضافہ کرتے ہیں۔

کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ سی این جی کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین جیسی گرین ہاؤس گیسوں میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے، جو عالمی حدت کو تیز کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سی این جی بھی پٹرول اور ڈیزل کی طرح ایک فوسل ایندھن ہی ہے۔

آخرکار سوال یہ ہے کہ جب پٹرول، ڈیزل اور سی این جی تینوں ہی خطرناک ہیں تو متبادل کیا ہے؟ دنیا کو توانائی کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے اور جدید ترقی انجنوں کے بغیر ممکن نہیں۔ بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں کو حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر یہ نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ بجلی کی پیداوار بھی، چاہے وہ کوئلے، پانی یا ایٹمی ذرائع سے ہو، ماحول کے لیے نقصان دہ ہے۔

سی این جی سے نکلنے والی نائٹروجن آکسائیڈ اب انسانی زندگی کے لیے ایک سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہم جدیدیت کے نام پر ان خطرات کو ابتدا میں نظرانداز کرتے ہیں، جو بعد میں بھیانک صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ فطرت کے خلاف جا کر توانائی، ہوا اور پانی کا کوئی متبادل ممکن نہیں۔ فطری حدود سے تجاوز ہمیشہ انسان کے لیے نقصان ہی لاتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined