فکر و خیالات

یومِ پیدائش پر خصوصی: دادا بھائی نوروجی اپنی مثال آپ تھے... کرشن پرتاپ سنگھ

بامبے میں لڑکیوں کا اسکول کھولا تو دادا بھائی قدامت پسندوں کے نشانے پر آ گئے، البتہ 5 سال گزرتے گزرتے اسکول طالبات سے بھر گیا۔ اس سے حوصلہ پا کر انھوں نے جنسی مساوات کی مہم چلائی۔

<div class="paragraphs"><p>دادا بھائی نوروجی، تصویر بشکریہ ’ایکس‘،&nbsp;<a href="https://x.com/praful_patel">@praful_patel</a></p></div>

دادا بھائی نوروجی، تصویر بشکریہ ’ایکس‘، @praful_patel

 

اپنے وقت میں ہندوستان کے ’گرانڈ اولڈ مین‘ کہلانے والے مرحوم دادا بھائی نوروجی کے ایک نہیں، کئی تعارف ہیں۔ اس وجہ سے کہ ملک کی آزادی کی جدوجہد میں تو انہوں نے اس کی ضرورت کے مطابق متنوع کردار ادا کیے ہی، اپنی زندگی کے سفر اور اس میں درپیش مسائل کو بھی یک رُخی نہیں رہنے دیا۔ اسی لیے کبھی وہ بیرونِ ملک ہندوستان کے ’غیر رسمی سفیر‘ کہلائے، کبھی ’سیاست کے بانی‘ اور کبھی اُس کی ’امید‘۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ کے ’ہاؤس آف کامنز‘ کے پہلے ہندوستانی رکن اور مہاتما گاندھی، لوک مانیہ بال گنگادھر تلک اور گوپال کرشن گوکھلے کے لیے بھی ترغیب کا ذریعہ تھے۔ انہیں معاشی قوم پرستی اور معاشی استحصال (ویلتھ ڈرین) کے نظریہ کا بانی ہونے کا سہرا بھی حاصل ہے، اور ہندوستانیوں کے لیے آزادی یا اپنی حکومت کا مطالبہ کرنے والے پہلے رہنما ہونے کا بھی۔

Published: undefined

28 دسمبر 1885 کو انڈین نیشنل کانگریس کی تشکیل ہوئی، تو وہ اس کے بانی اراکین میں سے ایک تھے۔ اگلے ہی سال، 1886 میں وہ اس کے دوسرے صدر بنے، جبکہ 1893 میں نویں اور 1906 میں بائیسویں۔ اپنی عوامی زندگی کے آخری دور میں انہوں نے کانگریس میں نرم اور گرم گروپ کے درمیان تصادم کو روکنے میں بھی اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ کانگریس کے قیام سے پہلے 1865 میں انہوں نے لندن میں ’لندن انڈین سوسائٹی‘ اور 1867 میں ’ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن‘ قائم کی تھی۔ اسی وقت سے وہ نسل پرستی اور سامراجیت کے کھلے مخالف اور مساوات و اخوت کے اصولوں پر پختہ یقین رکھنے والی شخصیت کے طور پر اُبھرنے لگے تھے۔

Published: undefined

ان کی پیدائش 4 ستمبر 1825 کو اُس وقت کی بامبے پریزیڈنسی میں واقع نوساری کے ایک نہایت عام غریب خاندان میں ہوئی تھی۔ انہوں نے 30 جون 1917 کو بامبے میں اس دنیا کو الوداع کہنے سے پہلے دانشور، ماہرِ تعلیم، تاجر، سیاسی و سماجی رہنما کے طور پر بھرپور مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ مشہور مورخ دنیار پٹیل کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والے معاشی استحصال، ظلم اور عدم مساوات جیسے پرانے اور نئے بحرانوں کے درمیان انہیں یاد کرنا اور ان سے تحریک لینا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ اس لیے بھی کہ ان کی شخصیت اور کارنامے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ترقی پسند سیاسی طاقت تاریخ کے سیاہ ابواب میں بھی روشنی کی ایک شمع کی طرح ہوتی ہے۔

Published: undefined

والدین کی غربت کے باعث دادا بھائی کی تعلیم اُس وقت چلائے جا رہے فری پبلک اسکولنگ کے ایک نئے تجربے کی مدد سے ممکن ہو سکی تھی۔ البتہ ایلفنسٹن انسٹی ٹیوٹ کے ذہین طالب علم کے طور پر تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ وہیں ریاضی کے پروفیسر بن گئے تھے۔ انہوں نے 1840 کی دہائی میں بامبے میں لڑکیوں کا اسکول کھولا، تو قدامت پسندوں کا نشانہ بن گئے۔ حالانکہ جلد ہی انہوں نے حالات کو اپنی طرف موڑ لیا اور 5 سال کے اندر دیکھا کہ وہ اسکول طالبات سے بھر گیا ہے۔ اس سے حوصلہ پا کر انہوں نے صنفی مساوات قائم کرنے کے لیے مہم شروع کی، جو اس خیال پر مبنی تھی کہ ہم ہندوستانیوں کے پاس اس فہم کا کوئی متبادل نہیں ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق اور سہولیات کے استعمال و فرائض کی ادائیگی کا مردوں کے برابر حق حاصل ہے۔

Published: undefined

اچانک انہیں ان دنوں اپنی سخاوت کے لیے مشہور کیماس برادران کی طرف سے ان کے کاروبار میں شراکت کی دعوت ملی اور وہ انگلینڈ چلے گئے۔ کئی حلقوں میں اسے ان کا زوال سمجھا گیا، لیکن ان حلقوں کو اس وقت اپنی رائے بدلنی پڑی جب انہوں نے اس کاروبار کی آمدنی سے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ جانے والے ہندوستانی طلبا کی دل کھول کر مدد کو اپنا مشن بنا لیا۔ وہاں ان کے زیرِ سایہ تعلیم حاصل کرنے والوں میں موہن داس کرم چند گاندھی اور محمد علی جناح بھی شامل تھے۔

Published: undefined

انگلینڈ میں یہ دیکھ کر ان کی بے چینی کی کوئی حد نہ رہی کہ جہاں گورے حکمراں بے پناہ خوشحالی کے سمندر میں غوطے لگا رہے ہیں، ان کی نوآبادی ہندوستان شدید غربت اور پسماندگی کا شکار ہے۔ پھر بھی جلتے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے برطانوی سامراج یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہندوستان کی کثیر الجہتی ترقی کے جو بھی اقدامات کرتا ہے، انہیں اس کی تیز رفتار آبادی نگل جاتی ہے۔ دادا بھائی نے اخذ کیا کہ جہاں تک آبادی کے اضافے کا تعلق ہے، وہ انگلینڈ میں ہندوستان سے کہیں زیادہ تیز ہے۔ درحقیقت یہی برطانوی سامراجیت ہے جو ہندوستان کا خون چوس چوس کر اسے موت کی طرف لے جا رہی ہے اور اس کی عوام کو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کا بھی موقع نہیں دے رہی۔ ان کی اس سوچ سے ناراض انگریزوں نے ان پر غداری تک کا الزام لگا دیا۔ لیکن اس سے پریشان ہوئے بغیر انہوں نے نوآبادیاتی معیشت کا حقائق پر مبنی تجزیہ کر کے معاشی استحصال یعنی ویلتھ ڈرین کا نظریہ پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح برطانوی سامراجیت اپنی نوآبادیات سے بے پناہ دولت باہر لے جا رہی ہے۔ اس طرح وہ پہلے ایسے ماہرِ اقتصادیات بن گئے، جنہوں نے ہندوستان کی غربت اور مہنگائی کے لیے برطانوی سامراج کی استحصالی معاشی پالیسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

Published: undefined

ماہرین کے مطابق دادا بھائی نوروجی کے ذریعہ پیش کردہ ریزلٹ کا نہ صرف یورپی سوشلسٹوں اور ولیم جیننگز برائن جیسے امریکی ترقی پسندوں پر، بلکہ کارل مارکس تک پر اثر پڑا۔ لیکن دادا بھائی اتنے پر ہی مطمئن نہیں ہوئے۔ انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی تاکہ اس کے اندر جا کر برطانوی نوآبادیات، خصوصاً ہندوستان میں سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کر سکیں۔ اس کے لیے انہوں نے وہاں کی لبرل پارٹی سے رابطہ کیا، لیکن 1886 میں ہولبورن سے کی گئی پہلی امیدواری کامیاب نہ ہو سکی۔ وہ الیکشن ہار گئے لیکن اپنے مشن پر قائم رہے۔

Published: undefined

آخر کار 1892 میں لندن کے سنٹرل فنسبری سے سخت مقابلے میں وہ 5 ووٹوں سے انتخاب جیت کر ہاؤس آف کامنز پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہاؤس آف کامنز میں بولنے کا پہلا موقع ملتے ہی انہوں نے ہندوستان میں برطانوی حکمرانی کو ایک ’شیطانی‘ طاقت قرار دیا اور کہا کہ وہ اگرچہ ہندوستانیوں کو اپنا ساتھی کہتا ہے، لیکن اس نے انہیں امریکی غلاموں سے بھی بدتر حالت میں رکھا ہے۔ دادا بھائی ہندوستانیوں کے ہاتھ میں اقتدار دینے کے لیے بل بھی پیش کرنا چاہتے تھے، لیکن ان کی کوششیں ناکام رہیں، کیونکہ ہاؤس آف کامنز کے اکثر اراکینِ پارلیمنٹ نے ان کے مطالبہ کو نظر انداز کر دیا۔ اس کے بعد 1895 میں دوبارہ انتخابات ہوئے، تو دادا بھائی شکست کھا گئے، ساتھ ہی ہندوستان میں برطانوی حکومت مزید ظالمانہ ہو گئی۔

Published: undefined

دادا بھائی نے ہندوستانیوں کی سیاسی غلامی اور خستہ حالی کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کروانے کے لیے ’پاورٹی اینڈ برٹش رول ان انڈیا‘ نام سے ایک کتاب بھی لکھی، جس میں ’وانٹس اینڈ مینز آف انڈیا‘ کے عنوان سے ان کا مشہور خط بھی شامل کیا گیا۔ ان کے نزدیک بدقسمتی کا سب سے بڑا پہلو یہ تھا کہ اپنی عوامی زندگی سے ریٹائر ہونے تک وہ ’سوراج‘ یعنی آزادی کے اپنے مطالبہ کو پورا نہیں کرا سکے۔ حتیٰ کہ 1906 میں کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں اپنے آخری خطاب میں ہندوستان کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی ناکامیوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے۔

Published: undefined

بلاشبہ، وہ مایوس اس لیے نہیں تھے کہ جنہیں وہ اپنی ناکامیاں کہہ رہے تھے، ملک میں آزادی کی جدوجہد کا جذبہ جگانے میں ملی کامیابی ان پر بھاری تھی۔ دادا بھائی کے انتقال کے 100 سال مکمل ہونے پر 2017 میں محکمہ ڈاک نے ان کا یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا، تو یہ ملک کی طرف سے ان کی ہمہ جہت خدمات کے لیے اظہارِ شکر تھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined