ویڈیو گریب
جغرافیائی لحاظ سے یہ 3100 کلومیٹر کا سفر تھا، اور جذباتی لحاظ سے یہ سماج کے ان علاقوں، قدامت پسندیوں، تعصبات اور بے معنی کہانیوں کی اس دنیا میں قدم رکھنا تھا جہاں، اور جن کے ذریعہ ویسے لوگوں کا مذاق بنایا جاتا ہے جو ذہن کے غیر مرئی لیکن گہری ٹیس دینے والی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ’کلینیکل ڈپریشن‘ اور ’بارڈرلائن پرسنالٹی ڈِس آرڈر‘ سے نبرد آزمائی کے دوران سحر ہاشمی کا تجربہ اس بات کی مثال ہے کہ ’سماجی داغ‘ کی بیماری کا شکار ہونے کا احساس کیسا ہوتا ہے اور متاثرہ پر کیا گزرتی ہے!
Published: undefined
20 اپریل 2025 کو شاعر، تصویر ساز، فیشن اسٹائلسٹ سحر ہاشمی اور سیاسی و سماجی کارکن دیو دیسائی دہلی سے کپواڑہ اور پھر واپسی کے سڑک سفر پر نکلے۔ سحر اور دیو اپنی رائل انفلیڈ بائک پر آگے آگے چل رہے تھے۔ پیچھے ایک کار میں ویڈیو کیمرہ کے ساتھ سوار تھے دھلے کی سرگرم کارکن اور گلوکارہ نازنین شیخ، ستنا/ریوا کے فلم ساز سمنیو شکلا اور کشمیر کے میڈیکل گریجویٹ مہراج الدین بھٹ۔
Published: undefined
’بریکنگ اسٹگما: وَن مائل ایٹ اے ٹائم‘ مہم شروع ہو چکی ہے۔ تین گنا زیادہ نتائج کی امید میں سحر کی سوچ سے نکلی اس مہم کا مقصد ہے: ذہنی صحت سے متعلق مسائل کے بارے میں عوامی بیداری کے ساتھ ایسی مشکلات کا سامنا کر رہے نوجوانوں کو پروفیشنلز کی مدد لینے کے لیے راغب کرنا اور ذہنی مرض میں مبتلا لوگوں کے لیے ایک معاون ماحول کو فروغ دینا۔
Published: undefined
تمام لوگ، خاص طور پر ہندوستان اور جنوبی ایشیا میں ایسے ہیں جو ذہنی مرض سے جڑی کئی غلط فہمیوں، گمراہ کن قصے کہانیوں اور سماجی سوچ کے سبب نہ صرف پیشہ ور مدد سے دور رہتے ہیں، بلکہ مجبوری میں اس کی تکلیف برداشت کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی سوچ اور سماجی تعصبات کو بدلنے کے مضبوط ارادے کے ساتھ سحر نے جگہ جگہ اثر انداز ویڈیو مظاہرہ اور ورکشاپس کے ذریعہ اپنی کہانی پیش کرنی شروع کی۔ اپنے گھر کی دہلیز پار کر کے وہ ایک ایسے سفر میں اتر چکی تھیں جہاں اپنائیت، سماجی قبولیت اور باہمی تعاون کی کوئی گارنٹی نہیں تھی۔ یہاں صرف ہمت اور عزائم کا مطلب تھا اور یہی اصل بات تھی۔
Published: undefined
ذہنی صحت کے ساتھ سحر کی اپنی لڑائی نے انھیں اس بات کی مصدقہ سمجھ عطا کی کہ جذبات کا استحصال، اندر ہی اندر گھٹن برداشت کرتے رہنا کیا ہوتا ہے۔ کیسا ہوتا ہے اس کا احساس۔ بائیکاٹ اور علیحدگی کے زخم پر جیت کا ہی اثر تھا، جس نے ان کے اندرون پر ایسا اثر ڈالا کہ ذہنی صحت کو لے کر موجود سماجی سوچ اور ’داغ کو ختم کرنے‘ کے ارادے سے یہ سفر وجود میں آیا۔
Published: undefined
سحر نے جس مہم کا خواب دیکھا تھا، اس کا مقصد نہ صرف ذہنی صحت سے جڑی قدامت پسندی، تعصبات اور بے معنی کہانیوں کو سامنے لانا تھا، بلکہ اس خوفناک داغ کے ذریعہ تجربہ کی جانے والی ’شرم‘ کو ہمیشہ کے لیے مٹا دینے کی ایک کوشش بھی تھی۔ سحر کا قافلہ شمالی ہندوستان کے قصبوں اور گاؤں میں گھوم گھوم کر انٹریکٹیو ورکشاپس کا انعقاد کرتا رہا۔ ناظرین اور شرکا نہ صرف اسکول و کالج کے طلبا و طالبات تھے بلکہ سماج کے سبھی طبقات کے لوگ تھے۔ ہر ورکشاپ ایک ایسے موقع میں تبدیل ہوتا نظر آیا جہاں ذہنی صحت اور اٹیک کے ساتھ مذاکرات کار کے اپنے تجربات نے ناظرین، نوجوانوں اور ضعیفوں کو نہ صرف حیران کیا بلکہ ان حقائق کا احساس بھی کرایا جن کا انھوں نے پہلے کبھی سامنا نہیں کیا تھا۔ سحر بھلے ہی اپنی ذہنی صحت کی جدوجہد کے درمیان خود کو از سر نو تلاش رہی تھیں، لیکن ان کی یہ مہم اس وقت اور سماج کے اندر ہمدردی و تعاون کی شرمناک کمی کی طرف اشارہ کرنے میں کامیاب رہی۔
Published: undefined
اننت ناگ، بارہمولہ، چنڈی گڑھ، دہلی، جالندھر، جموں، کانگڑا، کھمریال، کپواڑہ، لدھیانہ، مکیریاں، نروانا، روہتک، سوگام، سوپور، سری نگر، پٹّن، وبورا سے تقریباً 3500 نوجوان مرد و خواتین 30 ڈائیلاگ سیشن میں شامل ہوئے۔ ان میں طلبا کے ساتھ گرام سماج اور ذہنی صحت سے جڑے پروفیشنل بھی تھے۔ سب نے ایک آواز میں کہا کہ ’’ذہنی مرض سے جڑے داغ سے لڑیں اور ذہنی صحت سے متعلق مسائل کا سامنا کر رہے لوگوں کو پروفیشنلز کی مدد لینے کے لیے راغب کریں۔‘‘
Published: undefined
حالانکہ سب کچھ موافق نہیں رہا۔ آگے بڑھ کر پیش قدمی کرنے والے ان نوجوانوں کی راہ میں رخنہ ڈالنے میں قدرت بھی پیچھے نہیں رہی، اور بادل پھٹنے کے سبب قومی شاہراہ 44 ایک ہفتہ کے لیے بند ہو گیا۔ حالانکہ ٹیم اس کے لیے بھی تیار تھی۔ قدرتی آفات کا بھرپور انداز میں سامنا کیا۔ انھوں نے راجوری، سرنکوٹ، شوپیاں سے ہوتے ہوئے پہاڑوں کے درمیان سب سے مشکل، سب سے جوکھم بھرا راستہ منتخب کیا اور 11450 فیٹ اونچے پیر پنجال درے کو پار کیا۔ سخت سردی اور بارش ان کے مضبوط عزائم اور لچیلے پن دونوں کا ہی امتحان لیتی رہی، لیکن وہ بے جھجک آگے بڑھتے رہے۔ کشمیر میں لاتعداد مقامات پر ان کا گرمجوشی سے استقبال ہوا۔
شاباش سحر، دیو، نازنین، سمنیو اور مہراج۔ شایر حیدر علی آتش کے الفاظ میں کہنا ہوگا: سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے، ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined