اردو غزل کی دنیا میں اگر کسی آواز نے حقیقی معنوں میں جادو جگایا، روح کو چھوا اور شاعری کو نئی زندگی عطا کی، تو وہ آواز مہدی حسن کی تھی۔ ان کا فن ایسا آئینہ ہے جس میں اردو زبان کی لطافت، موسیقی کی گہرائی اور جذبات کی شدت پوری آب و تاب کے ساتھ جھلکتی ہے۔ وہ صرف گلوکار نہیں، بلکہ اردو غزل کے عہدساز معمار تھے۔
18 جولائی 1927 کو راجستھان کے ایک چھوٹے سے گاؤں لونا میں پیدا ہونے والے مہدی حسن کو موسیقی ورثے میں ملی۔ وہ خود کو کلونت گھرانے کی سولہویں نسل سے مانتے تھے، جہاں کلاسیکی موسیقی کا چراغ نسل در نسل روشن رہا۔ بچپن ہی میں ان کے گلے میں جو سُر بسا، وہ وقت کے ساتھ ایسا پختہ ہوا کہ آنے والے عشروں میں اردو غزل اسی کے سہارے گونجتی رہی۔
Published: undefined
آٹھ سال کی عمر میں پہلا موسیقی پروگرام پیش کرنے والے مہدی حسن تقسیم ہند کے بعد اپنے خاندان سمیت پاکستان منتقل ہوئے۔ ہجرت کے صدمات، مالی پریشانیاں اور زندگی کی دشواریاں بھی ان کے جذبے کو ٹھنڈا نہ کر سکیں۔ کبھی سائیکل مرمت کی تو کبھی ٹریکٹر کے انجن جوڑے لیکن دل میں موسیقی کا سُر کبھی بجھنے نہ دیا۔ دن بھر مشقت کے بعد بھی ان کا ریاض جاری رہتا۔
1957 میں ریڈیو پاکستان پر بطور ٹھمری گلوکار ان کا پہلا باقاعدہ تعارف ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے اردو شاعری سے محبت کو گائیکی میں ڈھالنا شروع کیا۔ یہ وہ دور تھا جب بیگم اختر، برکت علی خان اور مختار بیگم جیسے بڑے نام غزل گائیکی میں چھائے ہوئے تھے لیکن مہدی حسن نے اپنی الگ پہچان بنائی۔ ان کی آواز میں جو درد، ٹھہراؤ اور گہرائی تھی، اس نے سننے والوں کو مسحور کر دیا۔
Published: undefined
ان کی پہلی مقبول غزل ’گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے‘ نے گویا ایک عہد کا آغاز کیا۔ میر، غالب، احمد فراز، پروین شاکر، نصیر ترابی، فیض احمد فیض اور دیگر کئی بڑے شعرا کی غزلیں جب مہدی حسن کے گلے سے نکلیں تو وہ سننے والوں کے دل پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئیں۔ ’رنجش ہی سہی‘، ’پتہ پتہ بوٹا بوٹا‘، ’اب کہ ہم بچھڑے‘، ’رفتہ رفتہ‘، ’آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے‘، ’دل میں طوفان چھپائے بیٹھا ہوں‘، ایسی درجنوں غزلیں آج بھی ہر عمر کے سامعین کے لبوں پر ہیں۔
احمد فراز سے جڑا ایک دلچسپ واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ دہلی ایئرپورٹ پر ایک سیکورٹی اہلکار نے جب ان سے پوچھا کہ کیا وہی ’رنجش ہی سہی‘ والے احمد فراز ہیں تو ان کے جواب ’ہاں‘ پر سارا پروٹوکول بدل گیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شاعر اور گلوکار کا رشتہ کتنا گہرا ہوتا ہے، خاص طور پر جب اسے مہدی حسن کی آواز چھو لے۔
Published: undefined
مہدی حسن کی مقبولیت صرف برصغیر تک محدود نہ رہی۔ حکومت پاکستان نے انہیں ’ہلالِ امتیاز‘ سے نوازا، نیپال نے ’گورکھا دکشنا باہو‘ ایوارڈ دیا اور ہندوستان میں ’سہگل ایوارڈ‘ ان کے حصے میں آیا۔ لتا منگیشکر جیسی عظیم گلوکارہ نے ایک بار کہا تھا، ’’مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔‘‘ نورجہاں نے انہیں سن کر کہا تھا، ’’جس خاندان میں ایسے لوگ پیدا ہوں، ان کے آبا و اجداد نے سُروں کے موتی دان کیے ہوں گے۔‘‘
ان کی آواز نے سرحدیں مٹائیں۔ مہدی حسن اور لتا منگیشکر کا ڈوئٹ ’تیرا ملنا‘، جو دونوں نے الگ الگ وقتوں میں گایا، بعد میں البم ’سرحدیں‘ میں شامل کیا گیا اور سامعین کے دلوں پر چھا گیا۔ یہ ان کا آخری گانا بھی ثابت ہوا۔
Published: undefined
مہدی حسن کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے غزل کو خواص سے نکال کر عوام تک پہنچایا، مگر معیار کو کبھی کم نہ ہونے دیا۔ ان کی آواز میں جو تربیت تھی، وہی ان کی کامیابی کی بنیاد تھی۔ ان کے مشہور البمز ’اندازِ مستانہ‘، ’کہنا ان سے‘، ’صدائے عشق‘، ’نقش فریادی‘، ’دل جو روتا ہے‘، ’سرحدیں‘ وغیرہ آج بھی خریداروں کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔
2012 میں 13 جون کو مہدی حسن نے اس دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔ انہیں فالج کا دورہ پڑا اور سانس کی تکلیف ہوئی، جس کے باعث وہ ہسپتال میں داخل رہے۔ ان کی عمر 84 برس تھی لیکن ان کی جدائی کے باوجود ان کی آواز ہمارے بیچ زندہ ہے۔ ان کا فن ایک ایسا چراغ ہے جس کی لو کبھی مدھم نہیں ہوگی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined