بالی ووڈ

جاں نثار اختر: فلمی نغموں اور اردو شاعری کو نئی پہچان دینے والا شاعر

جاں نثار اختر نے اردو شاعری اور بالی ووڈ کو اپنی نغمہ نگاری سے نئی سمت عطا کی۔ کلاسیکیت، رومانیت اور حقیقت نگاری کے امتزاج نے انہیں منفرد بنایا۔ او پی نیر اور گرودت کے ساتھ کام کر کے وہ امر ہوئے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا جان نثار اختر

اردو ادب اور ہندی فلمی دنیا میں جاں نثار اختر کا نام ایک ایسے شاعر اور نغمہ نگار کے طور پر لیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے نغموں کو زندگی کے قریب لا کر انہیں عوامی احساسات کا ترجمان بنایا۔ انہوں نے نغمہ نگاری میں ایسی تازگی پیدا کی جو ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوئی۔ ان کی شاعری کلاسیکیت، رومانیت، حقیقت نگاری اور نظریاتی وابستگی کا حسین امتزاج ہے۔ اسی وجہ سے وہ صرف فلمی دنیا کے ہی نہیں بلکہ اردو شاعری کے بھی ایک درخشاں ستارے ہیں۔

جاں نثار اختر 1914 میں مدھیہ پردیش کے گوالیار میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مضطر خیرآبادی خود ایک ممتاز شاعر تھے، اس لیے اختر کے بچپن ہی سے شاعری سے گہرے مراسم قائم ہو گئے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں انہوں نے ادبی دنیا میں قدم رکھا اور شاعری کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ وہ انسانی زندگی کے دکھ سکھ اور زمانے کی تبدیلیوں کو قریب سے دیکھتے تھے، اسی لیے ان کے کلام میں ایک خاص گہرائی اور زندگی کی حقیقتوں کا عکس ملتا ہے۔

Published: undefined

سال 1945 ان کے لیے خاص اہمیت کا حامل رہا جب ان کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی جسے انہوں نے پیار سے ’جادو‘ پکارا۔ یہی جادو بعد میں فلمی دنیا میں ’جاوید اختر‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد 1947 میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور فسادات نے انہیں گوالیار سے بھوپال آنے پر مجبور کیا۔ یہاں وہ حمیدیہ کالج میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے لیکن تدریس ان کے خوابوں کو مکمل نہ کر سکی۔ وہ اپنی تخلیقی آرزوؤں کو پورا کرنے کے لیے 1949 میں ممبئی آ گئے۔

ممبئی میں قیام ان کے لیے آسان نہ تھا۔ ابتدا میں انہیں رہائش کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑی اور کچھ دنوں کے لیے وہ مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی کے ہاں ٹھہرے۔ انہوں نے فلم ’شکایت‘ کے لیے نغمے لکھے لیکن فلم کی ناکامی نے انہیں مایوس کر دیا مگر انہوں نے ہار نہ مانی اور مسلسل جدوجہد جاری رکھی۔

Published: undefined

1952 ان کی زندگی کا مشکل سال تھا جب ان کی شریکِ حیات کا انتقال ہو گیا لیکن اس صدمے کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور فلمی دنیا میں مقام بنانے کی جدوجہد جاری رکھی۔ بالآخر 1953 میں فلم ’نغمہ‘ کے لیے ان کا لکھا ہوا گیت ’بڑی مشکل سے دل کی بے قراری میں قرار آیا‘ کامیاب ہوا اور وہ فلم انڈسٹری میں ایک پہچان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

اسی دوران ان کی ملاقات موسیقار او پی نیر سے ہوئی۔ فلم ’باپ رے باپ‘ میں ان کے لکھے ہوئے نغمے ’اب یہ بتا جائیں کہاں‘ اور ’دیوانہ دل اب مجھے راہ دکھائے‘ آشا بھونسلے کی آواز میں بہت مقبول ہوئے۔ اس کے بعد وہ او پی نیر کے پسندیدہ نغمہ نگاروں میں شمار ہونے لگے۔

Published: undefined

1956 میں او پی نیر کی موسیقی اور گرو دت کی ہدایت کاری میں بنی فلم ’سی آئی ڈی‘ نے جاں نثار اختر کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اس فلم کا شہرہ آفاق نغمہ ’اے دل ہے مشکل جینا یہاں، ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے یہ ہے بمبئی میری جاں‘ آج بھی ممبئی کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور فلمی دنیا میں اپنی جگہ مستحکم کر لی۔

ساٹھ کی دہائی میں انہوں نے موسیقار خیام کے ساتھ مل کر کئی غیر فلمی گیت تخلیق کیے۔ ان میں ’اشعار میرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں‘، ’ہر ایک حسن تیرا‘، ’ہم سے بھاگا نہ کرو‘ اور ’ذرا سی بات پر ہر‘ جیسے گیت آج بھی شائقین کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ محض نعرے یا جذباتی الفاظ نہیں تھے بلکہ زندگی کی حقیقتوں کا عکاس تھے۔

Published: undefined

ان کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے 1976 میں انہیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ تقریباً چار دہائیوں کے فلمی سفر میں انہوں نے 80 سے زائد فلموں کے لیے نغمے تحریر کیے۔ ان کے لکھے ہوئے نغمے آج بھی فلمی موسیقی کی تاریخ میں یادگار ہیں۔

19 اگست 1976 کو یہ عظیم شاعر اور نغمہ نگار دنیا سے رخصت ہو گیا۔ لیکن ان کا تخلیقی ورثہ آج بھی زندہ ہے۔ ان کی شاعری اور نغمے نئی نسل کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ فن میں خلوص اور سچائی ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined