بظاہر مشرق وسطیٰ میں ترکی بڑی شدت کے ساتھ ’مسلم بھائی چارے‘ کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اب تک کوئی بڑی کامیابی سامنے نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی قتل کے بعد اس خطے کے سیاسی منظر میں تبدیلی نمودار ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اب خاشقجی قتل کے بعد سعودی عرب پر بین الاقوامی دباؤ محسوس کیا جاتا ہے اور اس دباؤ کو بڑھانے میں ترکی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
Published: undefined
سعودی قونصل خانے میں رواں برس 2 اکتوبر جمال خاشقجی قتل نے سعودی عرب کی شہرت کو کسی حد تک داغ دار کر دیا ہے۔ اس قتل میں مبینہ طور پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے پس پردہ ہونے کے الزامات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد سعوی عرب اور شہزادہ محمد بن سلمان کے تشخص پر انگلیاں اٹھ چکی ہیں اور ایسے میں ان کی سابقہ حیثیت کو بحال ہونے میں وقت درکار ہو گا۔
Published: undefined
بین الاقوامی تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس میں شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے امور کی ڈائریکٹر لینا خطیب کا خیال ہے کہ خاشقجی قتل کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوگان کو ایک سنہرا موقع میسر آیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے بجائے ترکی کو مسلم دنیا کا ایک نیا لیڈر بنا سکیں۔ خطیب کے مطابق خاشقجی سے پیدا ہونے والی صورت حال ایک جغرافیائی و سیاسی بحران ہے اور یہ ترکی کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔
Published: undefined
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جو بحرانی کیفیت ہے، وہ اتنی پرزور نہیں کہ وہ سعودی اقتدار میں سے شہزادہ محمد بن سلمان کو ولی عہد کے منصب سے ہٹا سکے۔ اس تناظر میں ترکی کو بھرپور امریکی تائید اور حمایت درکار ہے۔ امریکی منشا کی صورت ہی میں سعودی ایوانِ اقتدار میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔
Published: undefined
یہ امر اہم ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مصر کی کالعدم قرار دی گئی مذہبی و سیاسی تحریک اخوان المسلمون کو بھی ترکی کی حمایت حاصل رہی ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوگان اس کے حامی خیال کیے جاتے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب سعودی عرب اور اُس کے اتحادی مصر و متحدہ عرب امارات اس تنظیم کے شدید مخالفین تھے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر بشکریہ جمال عباس فہمی
تصویر: سوشل میڈیا