خواتین

2017 میں دنیا کی 50 ہزار عورتيں اہل خانہ کے ہاتھوں قتل: یو این رپورٹ

عورتوں پر تشدد اور ان کے قتل کے کئی واقعات ميں متاثرين کے قريبی حلقے ہی ملوث پائے جاتے ہيں، يہ مسئلہ دنيا بھر میں پايا جاتا ہے ليکن افريقہ اور ايشيا ميں ايسے واقعات کی تعداد بالخصوص نماياں ہے۔

’2017ء ميں پچاس ہزار عورتيں اہل خانہ کے ہاتھوں قتل ہوئيں‘
’2017ء ميں پچاس ہزار عورتيں اہل خانہ کے ہاتھوں قتل ہوئيں‘ 

سن 2017 کے دوران دنيا بھر ميں تقريباً پچاس ہزار عورتوں کو ان کے شوہروں، پارٹنرز يا ديگر اہل خانہ نے قتل کيا۔ يہ انکشاف منشيات و جرائم کے انسداد کے ليے سرگرم اقوام متحدہ کے دفتر (UNODC) نے پير آٹھ جولائی کو آسٹريا کے دارالحکومت ويانا سے جاری کردہ ايک رپورٹ ميں کيا گيا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سن 2017 ميں پر تشدد کارروائيوں يا جرائم کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والی عورتوں کی تعداد 87,000 رہی۔

Published: 09 Jul 2019, 7:09 PM IST

اس رپورٹ کے مطابق کئی کيسز ميں عورتوں کا ان کے اس وقت کے پارٹنرز، سابق پارٹنرز، والد، بھائيوں، ماؤں، بہنوں اور ديگر اہل خانہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ يہ امر اہم ہے کہ شوہروں يا پارٹنرز کے ہاتھوں قتل کے کيسز ميں واردات عموماً اچانک رونما نہيں ہوئی بلکہ عليحدگی کے خوف، حسد، شک اور ديگر وجوہات کی بناء پر طويل جھگڑے کے بعد ہی ايسی کارروائی سامنے آتی ہے۔ ايسے کيسز ميں ديکھا گيا ہے کہ عورتيں قتل سے قبل تسلسل کے ساتھ تشدد کا شکار بھی بنتی ہيں۔

Published: 09 Jul 2019, 7:09 PM IST

گھريلو تشدد کے سب سے زيادہ جان ليوا واقعات بر اعظم ايشيا ميں ديکھے گئے۔ ايشيائی ممالک ميں سن 2017 کے دوران بيس ہزار عورتوں کو ان کے اس وقت کے پارٹنرز، سابق پارٹنرز، والد، بھائيوں، ماؤں، بہنوں اور ديگر اہل خانہ نے موت کے گھاٹ اتار ديا۔ افريقہ ميں ايسے کيسز کی تعداد انيس ہزار، بر اعظم امريکا ميں آٹھ ہزار اور يورپ ميں تين ہزار رہی۔ اگر بر اعظم کی مجموعی آبادی سے ايسے قتل کے تناسب کا موازنہ کيا جائے، تو براعظم افريقہ عورتوں کے ليے سب سے خطرناک ہے۔

Published: 09 Jul 2019, 7:09 PM IST

عورتوں کے خلاف تشدد معاشرے ميں پائے جانے والے دقيانوسی خيالات اور 'مرادنگی‘ کے تصور کے سبب پايا جاتا ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والے محققين کے بقول ايسے معاشروں ميں مرد عموماً سمجھتے ہيں کہ وہ جب چاہيں اپنی بيويوں کو جنسی عمل پر مجبور کرنا يا بيويوں پر زور چلانا ان کا حق ہے۔

Published: 09 Jul 2019, 7:09 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 09 Jul 2019, 7:09 PM IST