تقریباﹰ پچاس خواتین صحافیوں کی جانب سے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں جنسی تشدد کی سنگین دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں جو خواتین صحافیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
Published: undefined
صحافی بے نظیر شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' ہم نے گزشتہ کچھ ماہ میں اس بات کا جائزہ لیا کہ خواتین صحافیوں کو بعض مخصوص سرکاری عہدیداروں اور ٹوئٹر اکاؤنٹس کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اب ہمیں مل کر اس کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔‘‘
Published: undefined
بے نظیر کا کہنا ہے کہ خواتین صحافیوں کی کردار کشی کی جاتی ہے اور ان پر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے پیسے لینے اور جھوٹی خبریں پھیلانے کا الزام لگایا جاتا ہے: '' ہمارے لیے تنقید مسئلہ نہیں۔ لیکن کیا حکومتی ترجمانوں کے خواتین صحافیوں پر رشوت لینے کے الزمات لگانا درست ہے؟‘‘
Published: undefined
صباحت خان گزشتہ دس سالوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، کہتی ہیں،'' سوشل میڈیا پر مجھے بہت سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اسلام سے متعلق ایک بلاگ لکھا جس کے بعد مجھے سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور مجھے ذاتی طور پر بہت نازیبا قسم کے پیغامات بھیجے گئے۔‘‘
Published: undefined
بے نظیر شاہ نے کہا کہ خواتین صحافیوں کو باقاعدہ پلاننگ کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے۔''ٹوئٹر پر ہماری شکایتوں کا وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے نوٹس تو لیا ہے لیکن ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ خواتین صحافیوں سے ملیں گی اور ان کی شکایات کا ازالہ کریں گی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined