سماج

بولے تو کہہ دینا عمران آیا تھا

ویسے خان صاحب کی جانب سے اس عاجزانہ مظاہرے سے یہ نظیر تو قائم ہو گئی کہ آئندہ جو بھی ملنا چاہے وہ بلا کھٹکے ملاقات کا وقت طے کئے بغیر بنی گالا کے گیٹ پر پہنچ کے پوچھے کہ خان صاحب کدھر ہیں؟

بولے تو کہہ دینا عمران آیا تھا
بولے تو کہہ دینا عمران آیا تھا 

گذشتہ ماہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک بھرے جلسے میں اپنے مشیرِ خاص شہباز گل کو پولیس ریمانڈ میں دینے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسلام آباد کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری کا نام لیتے ہوئے کہا کہ زیبا صاحبہ ہم آپ کو بھی عدالت میں دیکھ لیں گے ۔

Published: undefined

اس دھمکی کا اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے عمران خان کے خلاف مجرمانہ توہینِ عدالت کی درخواست کی سماعت شروع کر دی اور غیر مشروط معافی مانگنے کا نوٹس دیا ۔عمران خان نے اپنے جواب میں ان حالات اور زہنی دباؤ کی وضاحت کی جس کے سبب ایسے سخت الفاظ ان کی زبان سے نکلے اور ان الفاظ پر افسوس کا اظہار کیا ۔ مگر عدالت نے انہیں غیر مشروط معافی کے لئے ایک اور بیانِ حلفی داخل کرنے کا موقع دیا۔

Published: undefined

دوسری بار بھی عمران خان کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگنے کے بجائے یہ پیش کش کی گئی کہ وہ جج زیبا چوہدری سے زاتی طور پر معافی مانگنے کو تیار ہیں۔

Published: undefined

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فراغ دلی سے کام لیتے ہوئے انہیں ایک اور موقع دیتے ہوئے کہا کہ وہ جج زیبا سے ملاقات کے بعد نیا بیانِ حلفی داخل کریں تاکہ یہ فیصلہ ہو سکے کہ ان کے خلاف توہینِ عدالت کی فردِ جرم برخواست کی جائے یا برقرار رکھی جائے ۔اگلی سماعت کے لئے تین اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی ۔

Published: undefined

تیس ستمبر کو اچانک عمران خان بنا اطلاع دئیے جج زیبا چوہدری کی عدالت میں پہنچے تو انہیں عدالت کے ریڈر اور اسٹینو گرافر نے بتایا کہ جج صاحبہ تو چھٹی پر ہیں ۔عمران خان نے کہا کہ ” میڈم زیبا کو بتانا کہ عمران خان آیا تھا ، معذرت کرنا چاہتا تھا ۔میرے الفاظ سے اگر کوئی دل آزاری ہوئی ہے تو۔انہیں ضرور بتا دینا ۔‘‘

Published: undefined

نہیں معلوم کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پیر تین اکتوبر کو جب توہینِ عدالت کے اس مقدمے کی سماعت کرے گی تو وہ عمران خان کے اس اقدام کو ان کی معافی کا درجہ دے گی یا پھر یہ پوچھے گی کہ آپ نے جج صاحبہ سے پیشگی رابطہ کر کے انہیں اپنے آنے کی اطلاع دی تھی یا نہیں ؟

Published: undefined

اگر آپ کا جج صاحبہ سے کسی سبب پیشگی رابطہ نہیں ہو سکا تو آپ کی جانب سے کسی نے عدالتی عملے سے رابطہ کر کے پوچھا کہ آج جج صاحبہ دفتر آئیں گی یا نہیں ؟

Published: undefined

کیا آپ اسی طرح اچانک کسی کے ہاں بھی پیشگی اطلاع کے بغیر پہنچ جاتے ہیں؟ یا پھر آپ نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ۔یعنی جب آپ کو بتایا گیا کہ جج زیبا آج چھٹی پر ہیں تو آپ نے بڑی 'معصومیت ‘ سے ان کے دفتر جانے کا فیصلہ کیا ۔تاکہ جج صاحبہ سے سامنا بھی نہ ہو اور ہر جانب واہ واہ بھی ہو جائے کہ دیکھو خان صاحب کتنے عاجز شخص ہیں کہ خود چل کے جج صاحبہ کے دروازے تک پہنچے ۔اب جج صاحبہ ہی چھٹی پر تھیں تو بچارے خان صاحب کیا کرتے ۔

Published: undefined

کیا یہ کافی نہیں کہ انہوں نے جج صاحبہ کے ریڈر اور اسٹینو گرافر کو اپنی خوش نیتی سے آگاہ کر دیا کہ محترمہ کو بتا دیا جائے کہ عمران خان معذرت کرنے آیا تھا۔ لوگ خامخواہ ہی کہتے ہیں کہ خان صاحب کی گردن میں سریا ہے ۔ ایسا ہوتا تو کاہے کو وہاں خود چل کے جاتے۔

Published: undefined

ویسے خان صاحب کی جانب سے اس عاجزانہ مظاہرے سے یہ نظیر تو قائم ہو گئی کہ آئندہ جو بھی ملنا چاہے وہ بلا کھٹکے ملاقات کا وقت طے کئے بغیر بنی گالا کے گیٹ پر پہنچ کے پوچھے کہ خان صاحب کدھر ہیں ۔اور جب یہ پوچھا جائے کہ کیا آپ کی ملاقات پہلے سے طے ہے تو یہ اچانک ملاقاتی بتائے کہ طے تو نہیں تھی ۔بس پڑوس میں ایک دوست کی عیادت کے لئے آیا تھا ۔سوچا کہ خان جی سے بھی ہیلو ہائے کرتا چلوں ۔چلیے مصروف ہیں تو کوئی بات نہیں ۔بس یاد سے کہہ دینا کہ محمد اسلم آیا تھا۔

Published: undefined

معروف شاعر اور ہمارے مشفق دوست جمال احسانی مرحوم نے ایک دفعہ اچانک ہم چار پانچ لوگوں سے کہا یار چلو عبیداللہ علیم کے گھر چلتے ہیں۔بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی ۔ہم سب اٹھ کھڑے ہوئے ۔سیڑھیاں اترتے ہوئے جمال نے کہا یار جا تو رہے ہیں کہیں عبید اللہ علیم مل ہی نہ جائیں۔

Published: undefined

جن دنوں میڈم نور جہاں کراچی کے ایک اسپتال میں داخل تھیں تو بہت سے مداح ان کی خیریت دریافت کرنے آتے ۔میڈم کے اہلِ خانہ میں سے کوئی نہ کوئی ملاقاتیوں سے ملنے کے لئے کاریڈور میں ہمیشہ موجود رہتا۔ایک دن ایک صاحب آئے ۔میڈم کی صاحبزادی نے ان سے کہا کہ ماں تو اس وقت آرام کر رہی ہیں مگر انکل آپ اپنا نام بتا دیں ۔انکل نے کہا ارے بھئی بس ہمارا سلام کہیے گا اور بتا دیجے گا کہ قریشی آئے تھے۔

Published: undefined

اور پھر انکل قریشی گلدستہ پکڑا کے کاریڈور میں غائب ہو گئے ۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined