سماج

پاکستان میں ایک دھرنا ملکی معیشت کو کتنے میں پڑتا ہے؟

حکومت مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے دن گن رہی ہے لیکن ملکی سرمایہ کار اور کاروباری افراد احتجاج، دھرنوں اور ہڑتالوں پر پریشان نظر آ رہے ہیں۔

پاکستان میں ایک دھرنا ملکی معیشت کو کتنے میں پڑتا ہے؟
پاکستان میں ایک دھرنا ملکی معیشت کو کتنے میں پڑتا ہے؟ 

پاکستان میں دھرنوں کی تاریخ

Published: undefined

پاکستان میں سیاسی مقاصد کے لیے جلسے، جلسوس، احتجاج، ہڑتال اور توڑ پھوڑ کی روایت بہت پرانی ہے۔ کئی سیاسی ناقدین کا دعوی ہے کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی ممتاز دولتانہ کے دور میں سب سے پہلے اس کی روایت بڑی جب خواجہ نظام الدین کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے ایک مذہبی اقلیت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کرایا گیا جو پر تشدد صورت بھی اختیار کر گئے تھے۔

Published: undefined

ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار میں بھی ایسے مظاہرے اور احتجاج ہوئے، جن سے کاروباری سرگرمیاں بہت متاثر ہوئیں۔ بھٹو مخالف نو ستارے یا قومی اتحاد نے بھی مظاہروں، ہڑتالوں اور پر تشدد احتجاج کو فروغ دیا۔

Published: undefined

کراچی میں نوے کے دہائی میں پر تشدد ہڑتالیں ہوئیں، جن کا سلسلہ کچھ برسوں کے توقف کے ساتھ دو ہزار پندرہ تک چلا۔

Published: undefined

حالیہ برسوں میں تاجر اور کاروباری افراد اس طرح کے احتجاجوں سے اس قدر پریشان نظر آئے کہ انہوں نے لاہور کے مال روڈ پر کسی بھی قسم کے دھرنے یا احتجاج پر پابندی لگوا دی۔ تاہم اسلام آباد میں ایسا نہیں ہوسکا اور پی ٹی آئی کے ایک سو چھبیس دن کے دھرنے کے بعد اب مولانا فضل الرحمان پورے طمطراق کے ساتھ اسلام آباد کے جی سیکٹر کے پاس جلوہ گر ہیں۔

Published: undefined

ان کے مداح ان کی موجودگی پر شادی المرگ میں مبتلا ہیں اور جھولے جھول رہے ہیں یا بچوں کے گیم کھیل رہے ہیں لیکن شہر کے تاجر و کاروباری افراد اضطرابی کیفیت میں اس دھرنے کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

Published: undefined

تاجروں اور کاروباری طبقے کی پریشانی

Published: undefined

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت محسن رضا کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو ہماری فکر ہی نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''حکومت نے سو کے قریب کنٹینرز اسلام آباد اور دو سو کے قریب پنڈی میں لگائے ہوئے ہیں۔ ایک کنٹینر کو اسلام آباد سے دس دن میں کراچی پہنچنا ہوتا ہے اور اگر وہ نہ پہنچے تو فی دن پندرہ ہزار روپے کا جرمانہ لگتا ہے۔ اس کے علاوہ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے آڈرز بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

محسن رضا کا مزید کہنا تھا، ''حکومت کو اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔ ہم تنگ آگئے ہیں ان روز روز کے احتجاجوں سے۔ اس کا کوئی حل نکالیں۔‘‘

Published: undefined

اسلام آباد سے میلوں دور پاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد میں بھی اس دھرنے کے حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے۔ فیصل آباد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر مزمل سلطان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے دھرنوں سے ملک کا امیج خراب ہوتا ہے۔ ''ہماری مصنوعات کے بیرونی خریدار ہماری فیکڑیوں کا دورہ کرنے نہیں آتے اور کاروباری ملاقاتوں کے لیے دبئی بلاتے ہیں۔ ایسے احتجاج ایک شہر سے نکل کر دوسرے شہروں میں جاتے ہیں، جس سے سینکڑوں کلو میڑ پر ٹریفک متاثر ہوتی ہے۔ ہماری شپ منٹ وقت پر نہیں پہنچ پاتی۔ پیداواری صلاحیت پر فرق پڑتا ہے۔‘‘

Published: undefined

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ صرف سیاسی احتجاجوں، ہڑتالوں اور دھرنے کو بھی حکومت اور سیاست دان روک لیں تو ملک کی کئی معاشی مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔

Published: undefined

دھرنوں کی قیمت

Published: undefined

کراچی میں نوے کے دہائی میں پر تشدد ہڑتالیں ہوئیں۔ سندھ کے سابق وزیر اعلی نے کچھ برسوں پہلے سندھ اسمبلی میں انکشاف کیا کہ ایک ہڑتال سے کم از کم صوبے کو پندرہ ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ معاشی ماہرین کے خیال میں پی ٹی آئی کے ایک سو چھبیس دن کے دھرنے سے ملک کو پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نقصان کا تخمینہ آٹھ سو ارب روپے ہے جب کہ کچھ ماہرین کے خیال میں یہ نقصان ایک ہزار ارب روپے تک تھا۔

Published: undefined

آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کا کہنا ہے کہ ملک کے معاشی حالات پہلے ہی خراب ہیں اور اگر اس سلسلے کو نہیں روکا گیا تو پھر ملکی معیشت مزید خستہ حال ہو گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صرف ایم کیو ایم کے طویل دور میں پانچ سو ہڑتالیں ہوئیں۔ مختلف اندازے ہیں لیکن میرے خیال میں ایک ہڑتال سے تقریبا آٹھ ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ تو پھر آپ اندازہ لگا لیں۔ اب اس دھرنے کے بھی منفی اثرات سامنے آسکتے ہیں۔ میڈیا کو خصوصا چاہیے کہ دھرنے کے حوالے سے کوریج ذمہ دارانہ انداز میں کرے تاکہ لوگوں میں خوف ہراس نہ پھیلے۔ خوف کاروبار کا قاتل ہے۔ اس لیے حکومت خوف کی فضا ختم کرے اور مسئلے کا کوئی حل نکالے۔‘‘

Published: undefined

ڈی ڈبلیو نے حکومت کے کئی ذمہ داروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined