سماج

میرے بیٹے نے آنکھیں ایک نئی دنیا میں کھولی ہیں

والدین کے لیے بچوں کی تعلیم و تربیت حساس سے زیادہ ایک جذباتی معاملہ ہے۔ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن نے اپنے بیٹے کے استاد کے لیے لکھے گئے خط میں کس خوبصورتی سے تعلیم و تربیت کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

میرے بیٹے نے آنکھیں اک نئی دنیا میں کھولی ہیں
میرے بیٹے نے آنکھیں اک نئی دنیا میں کھولی ہیں 

ابراہم لنکن کا اپنے بیٹے کے استاد کے نام شہرۂ آفاق خط جب بھی پڑھتی ہوں، اس کے الفاظ مجھے اپنے بیٹے کے متعلق جذبات کی صحیح ترجمانی محسوس ہوتے ہیں۔ وہ لفظ جو میں اپنے بچوں کے اساتذہ سے خود کہنا چاہتی ہوں لیکن تعلیم کے کاروبار کی دنیا میں محض الفاظ سے زیادہ ان کے کوئی معنی نہیں ہیں۔

Published: undefined

ابراہم، کے الفاظ میں کس قدر سچائی اور دور اندیشی ہے۔

خط کے ایک حصے میں وہ لکھتا ہے؛

محترم استاد!

آپ اس کا ہاتھ تھام کر بڑے پیار سے، اسے وہ سب بتائیے گا، جو اس کو سیکھنا ہے۔ اس کو یہ پڑھائیے گا کہ ہر دشمن کے بدلے ایک دوست بھی ہوا کرتا ہے۔ اسے یہ بھی جاننا ہے کہ سارے آدمی سچے اور ایمان دار نہیں ہوتے لیکن اسے آپ یہ بھی بتائیے گا کہ ہر مجرم کے ساتھ ایک ہیرو بھی موجود رہتا ہے۔

Published: undefined

اسے یہ ضرور سکھائیے گا کہ محنت کر کے کمائے ہوئے دس سینٹ مفت کے ایک ڈالر سے زیادہ قیمتی ہیں اور امتحان میں نقل کرنے سے فیل ہونا زیادہ باعزت ہے۔ اسے یہ بھی سکھائیے گا کہ کھلے دل سے ہار کیسے قبول کرتے ہیں اور جیت کی مسرت کیسے مناتے ہیں؟

Published: undefined

اسے یہ سبق بھی پڑھائیے گا کہ تند مزاج اور اکھڑ سے اکھڑ انسان کے ساتھ نرم دلی سے پیش آئے۔ اگر آپ کر سکیں تو اسے حسد سے دور رکھیے گا اور خاموش قہقہے کا راز ضرور سکھائیے گا۔ اسے یہ بتائیے گا کہ غم میں کیسے مسکراتے ہیں اور یہ بھی کہ آنسوؤں میں کوئی شرم نہیں۔ اسے یہ بھی بتائیے گا کہ ہار میں بھی عظمت ہو سکتی ہے اور بہ ظاہر کامیابی میں بھی شکست۔

Published: undefined

آپ اسے کتابوں کے عجائبات ضرور بتائیے مگر اسے اتنا وقت بھی ضرور دیں کہ وہ آسمان میں محو پرواز پرندوں، سورج تک اڑتی شہد کی مکھیوں اور سبز پہاڑی پر اگے پھولوں کے خوب صورت راز جان سکے۔ اسے سکھائیے گا کہ وہ اپنے خود کے خیالات پر یقین رکھے، چاہے سب انہیں غلط قرار کیوں نہ دیں۔

Published: undefined

اسے یہ بات سکھائیے کہ چاہے وہ اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کا سب سے بڑھ کر معاوضہ لے، مگر کبھی اپنے دل اور روح کی قیمت نہ لگائے۔ اسے ڈٹ جانے کی ہمت دیجیے اور بہادری دکھانے والا صبر، اسے سکھائیے کہ وہ خود پر غیر متزلزل یقین رکھے کیوں کہ اس طرح ہی وہ انسانیت اور خدائے عظیم پر ہمیشہ بھروسہ قائم کر سکے گا۔ مجھے آپ سے بس یہی کہنا ہے۔مزید، آپ دیکھیے گا کہ آپ اور کیا بہتر کر سکتے ہیں۔ یہ میرا بیٹا ہے اور بہت ہی معصوم اور دل جُو بچہ ہے۔

Published: undefined

والدین، کے لیے بچوں کی تعلیم و تربیت حساس سے زیادہ ایک جذباتی معاملہ ہے۔ والدین زمانے بھر کی خوشیاں اور آسائشیں اپنی اولاد کی راہوں میں نچھاور کرنا چاہتے ہیں۔ وہیں ہر وقت ایک دھڑکا بھی لگا رہتا ہے کہ گھر کی چار دیواری سے باہر کی فضا آغوش مادر نہیں ہے۔

Published: undefined

آنے والے دنوں میں، میرے بچے نے جس دنیا کا سامنا کرنا ہے، اس کے لیے میں نے اپنے بچوں کو تیار کرنا ہے۔ وہاں جذبات اور احساسات کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ بقا کے اصول مقابلہ اور مسابقت طے کرتے ہیں اور آگے بڑھنے کا حق صرف جیتنے والے کو ہے۔ بہ حیثیت "سنگل پیرنٹ" میں اس معاملے میں شاید ضرورت سے کچھ زیادہ حساس ہوں یا محتاط۔ لیکن ان تلخ حقائق کو نظر انداز تو نہیں کیا جا سکتا۔

Published: undefined

اپنی آنکھوں میں کچھ ایسے ہی خواب اور خدشات لیے گزشتہ روز میں اپنے بیٹے کو شہر کے ایک معروف تعلیمی ادارے میں داخلہ کے امتحان کے لیے لے کر گئی۔ امتحان کا دباؤ بچے پر تو تھا ہی، لیکن اسکول کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہوئے میں نے اپنے قدموں کی ڈگمگاہٹ کو بھی بہ مشکل قابو کیا۔ وہاں میرے ہی جیسے کچھ پر امید اور کچھ مضطرب والدین کا ہجوم بھی تھا، جن کے دل کی کیفیات ان کے چہروں پر واضح تھیں۔

Published: undefined

کمرۂ امتحان میں جانے کے لیے بچوں کے نام پکارے جانے لگے اور اسی لمحے مجھے اپنے دل کی دھڑکن بکھرتی ہوئی محسوس ہوئی۔ جیسے ہی لاؤڈ سپیکر پر مجھے اپنے بیٹے کا نام سنائی دیا، اپنے بچپن سے یاد کی ہوئی دعائیں اور وظائف بے ساختہ میری زبان پر جاری ہو گئے۔

Published: undefined

ادھر بچوں کا امتحان شروع ہوا اور باہر انتظار گاہ کا منظر کسی ہسپتال کے آپریشن تھیٹر کی انتظار گاہ سا دکھائی دینے لگا۔ جہاں، والدین کے چہروں پر عیاں بے چینی کی چغلی، ان کے خشک ہونٹ اور تسبیحوں پر تیزی سے چلتی انگلیاں کھا رہی تھیں۔ اتنے میں دوبارہ اعلان ہوا کہ بچوں کے امتحان کے ساتھ ساتھ والدین کا انٹرویو بھی کیا جائے گا اور کچھ ہی دیر میں مجھے بلا لیا گیا۔

Published: undefined

میرا انٹرویو کرنے والوں میں اسکول کی دو تجربہ کار خواتین اساتذہ تھیں۔ کچھ تو یہ انٹرویو خلاف توقع تھا اور دوسرا ذہنی دباؤ، لیکن حیرت انگیز طور پر ان کے سوالات بہت ہی جامع اور مرتکز قسم کے تھے، جن کے لیے میں تیار نہیں تھی۔

Published: undefined

اس موقع پر، میں نے بس ابراہم لنکن کے اس خط کو اپنے الفاظ میں بیان کر دیا۔الفاظ کی قوت یا پھر جذبات کی سچائی، انٹرویو کے اختتام پر ان دونوں اساتذہ کی آنکھوں میں بھی مجھے وہی بھیگی سی روشنی دکھائی دی، جس میں اپنی اولادوں کے مستقبل کی چمک تھی۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined