الہ آباد ہائی کورٹ نے انسداد گؤ کشی قانون کے تحت گرفتار ایک مسلمان کی ضمانت کی عرضی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گائے بھارتی کلچر کا اٹوٹ حصہ ہے اور مرکزی حکومت کو اس کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔
Published: undefined
الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو نے گؤ کشی کے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مرکز کی مودی حکومت سے کہا کہ گائے کے تحفظ کا قانون پارلیمان میں لائے جس میں گائے کے تحفظ کو ہندوؤں کا بنیادی حق قرار دیا جائے۔
Published: undefined
جسٹس شیکھر کمار یادو نے بارہ صفحات پر مشتمل اپنے حکم نامے میں کہا،”حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے گائے کو قومی جانور قرار دیا جائے اور گائے کے تحفظ کو ہندوؤں کا بنیادی حق قرارد یا جائے کیونکہ جب ملک کے کلچر اور 'آستھا‘ کوچوٹ پہنچتی ہے تو ملک کمزور ہوجاتا ہے۔" انہوں نے کہا،”جب گائے کا بھلا ہوگا تبھی دیش کا بھلا ہوگا۔"
Published: undefined
فاضل جج نے گائے کی تعریف اور اس کی افادیت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا،”گائے کے دودھ، دہی، مکھن، پیشاب اور گوبر پانچ چیزوں سے تیار ہونے والی 'پنچ کاویم‘ کئی بیماریوں کے علاج میں مفید ہیں اور ہندو دھرم کے مطابق گائے میں 33 دیوی اور دیوتاؤں کا واس (قیام) ہوتا ہے۔" اپنے اس دعوے کی تائید میں جسٹس یادو نے ہندووں کی مقدس کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا،”گائے کا ذکر وید میں بھی ہے جو کہ ہزاروں برس پرانی ہے۔"
Published: undefined
جسٹس یادو نے کسی ثبوت کے بغیر کہا،”سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گائے واحد جانور ہے جو آکسیجن لیتی ہے اور آکسیجن ہی خارج کرتی ہے۔" گائے کے آکسیجن خارج کرنے کے حوالے سے بھارت میں ماضی میں بہت سی شدت پسند ہندو تنظیمیں بھی دعوے کرتی رہی ہیں تاہم آج تک اس کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں پیش کرسکی ہیں۔
Published: undefined
گوکہ ہندو شدت پسند تنظیموں نے مغل بادشاہوں کے خلاف ایک مہم چھیڑ رکھی ہے اور ہندوؤں کے خلاف ان کی مبینہ زیادتیوں کے من گھڑت واقعات کو بڑے پیمانے پر پھیلارہی ہیں تاہم جسٹس یادو کا کہنا تھا،”صرف ہندو ہی نہیں بلکہ مسلمان بھی بھارتی کلچر میں گائے کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور بابر، اکبر اور ہمایوں جیسے بادشاہوں نے تہواروں کے موقع پر گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔"
Published: undefined
انہو ں نے نصیحت کرتے ہوئے کہا،”آپ صرف زبان کے چٹخارے کے لیے کسی کی جان نہیں لے سکتے اور زندہ رہنے کا حق مارنے کے حق سے بالاتر ہے۔ گائے کا گوشت کھانا کبھی بھی بنیاد ی حق نہیں رہا ہے۔ بنیادی حق صرف ان کے لیے خصوصی مراعات نہیں ہے جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں بلکہ ان کے لیے بھی ہے جن کی آمدنی کا ذریعہ گائے ہے اور جو گائے کی پوجا کرتے ہیں۔"
Published: undefined
جسٹس یادو نے کہا کہ بھارت کی تاریخ ایسے واقعات سے پر ہے کہ لوگ کس طرح بھارتی کلچر اور گائے کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے دعوی کیا،”مسلمانوں کی اکثریت ملک میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی کے حق میں ہے۔ گائے کا تحفظ بھارتی کلچر کے مترادف ہے۔ یہ کسی ایک مذہب تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام شہریوں کو اپنے اپنے مذاہب سے بالا تر ہوکر گائے کی حفاظت کرنی چاہیے۔"
Published: undefined
جسٹس یادو نے گائے کے تحفظ کے معاملے کو طالبان سے بھی جوڑ دیا۔ انہوں نے کہا،”... جب بھی ہم نے اپنے کلچر کو بھلایاتو غیر ملکیوں نے ہم پر حملہ کیا اور ہمیں غلام بنالیا۔ اور اگر آج بھی ہم چوکنا نہیں ہوئے تو طالبان کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے افغانستان پر قبضہ کرلیا ہے۔ ہمیں اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔"
Published: undefined
بھارت میں گائے کو ایک سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ایک انتہائی حساس موضوع ہے۔ سن 2014میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد مشتعل ہجوم کے ہاتھوں گائے کے نام پر ہونے والے قتل کے واقعات میں درجنوں مسلمان اور نچلی ذات کے دلت ہندو مارے جاچکے ہیں۔
Published: undefined
بی جے پی اور اس کے رہنما گائے کے ذبیحہ پر پابندی کی باتیں تو ضرور کرتے ہیں لیکن وہ اس پر ملک گیر پابندی عائد کرنے سے احتراز بھی برتتے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت والی کئی ریاستوں میں بھی گائے کا گوشت فروخت کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے جبکہ گائے کا گوشت ایکسپورٹ کرنے والی تقریباً تمام بڑی کمپنیاں غیرمسلموں کی ہیں۔
Published: undefined
اپوزیشن کانگریس کے معاون قومی کنوینر منوج مہتا نے ٹوئٹ کرکے کہا،”اگر ہندوتوا کے خودساختہ ٹھیکیداروں میں ذرا بھی شرم ہے تو انہیں گائے کے نام پر سیاسی تشدد بند کردینا چاہیے۔"
Published: undefined
جسٹس یادو جس کیس کی سماعت کررہے تھے اس کا تعلق اترپردیش میں سنبھل کے جاوید نامی ایک شخص سے ہے۔ جاوید پراترپردیش ذبیحہ گاؤ قانون کے تحت کیس دائر کیا گیا تھا۔ وہ آٹھ مارچ سے جیل میں بند ہیں۔
Published: undefined
جاوید کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف پولیس کی ملی بھگت سے جھوٹا کیس دائر کیا گیا ہے۔ وہ اس جگہ موجود بھی نہیں تھے جہاں مبینہ طورپر گائے ذبح کی گئی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو نے تاہم جاوید کے دلائل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں وہ قصور وار نظر آتا ہے۔ ''اگر اسے ضمانت پر رہا کردیا گیا تووہ پھر یہی جرم کرے گا اور سماج میں کشیدگی پیدا ہوگی۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: محمد تسلیم