سماج

ترکی میں صدر کی توہین کرنا جرم ہے،توہین آمیز جملوں پر دو خواتین کے خلاف کاروائی

ترک پینل کوڈ کے آرٹیکل 299 کے تحت صدر کی توہین پر ایک سے چار سال کی سزا مختص ہے۔ ترکی میں 2014 میں ایردوآن کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے ہزاروں افراد کو ’صدر کی توہین‘ کے جرم میں سزا سنائی جا چکی ہے۔

توہین آمیز جملوں پر ترک خواتین کے خلاف قانونی کاروائی
توہین آمیز جملوں پر ترک خواتین کے خلاف قانونی کاروائی 

ترکی میں گزشتہ ہفتے دو معروف خواتین نے سرخیاں بنائیں۔ جن میں ممتاز ترک صحافی صدف کباس بھی شامل ہیں۔ کباس نے ایک مشہور ٹیلی وژن سے بات کرتے ہوئے کہا،''ایک بہت مشہور کہاوت ہے کہ تاج والا سر سمجھدار ہو جاتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے۔ جب بیل محل میں داخل ہوتا ہے تو وہ بادشاہ نہیں بن جاتا بلکہ محل ایک کھلیان بن جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے بعد میں یہ جملہ ٹویٹ بھی کیا۔

Published: undefined

52 سالہ صحافی کو اس بات پر حکومتی اہلکاروں اور حکومت کے حامی گروہوں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ وزیر انصاف عبدالحمیت گل نے کہا'' کباس کو اپنے غیر قانونی الفاظ کے لیے وہی ملے گا جس کی وہ حقدار ہیں۔‘‘ ترکی کے صدارتی ڈائریکٹر برائے کمیونیکشن فرحتین التون نے ٹویٹ کیا، ''صدارت کے دفتر کا اعزاز ہمارے ملک کا اعزاز ہے۔ میں اپنے صدر اور ان کے دفتر کے خلاف کی جانے والی بے ہودہ توہین کی شدید مذمت کرتا ہوں۔‘‘

Published: undefined

ہفتہ کو نصف شب سکیورٹی فورسز نے کباس کو صدر رجب طیب ایردوآن کی توہین کرنے پر حراست میں لے لیا۔ ترک پینل کوڈ کے آرٹیکل 299 کے تحت ملکی صدر کی توہین پر ایک سے چار سال قید کی سزا مختص ہے۔ ترکی میں 2014 میں ایردوآن کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے ہزاروں افراد کو 'صدر کی توہین‘ کے جرم میں سزا سنائی جا چکی ہے۔

Published: undefined

’صدر کی توہین‘ پر مقدمہ

ترکی کی وزارت انصاف کے اعدادوشمار کے مطابق، ملکی صدر کی توہین کے مرتکب ہونے والے تقریباﹰ 170 افراد کے خلاف تحقیقات شروع کی گئی ہیں اور گزشتہ آٹھ سالوں میں اس ضمن میں 35,507 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ یہ قانون نہ صرف صحافیوں، فنکاروں اور ماہرین تعلیم بلکہ عام شہریوں کے خلاف بھی استعمال ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے مطابق یہ آرٹیکل آزادی اظہار پر ایک سنگین حملہ ہے۔

Published: undefined

یورپی عدالت برائے انسانی حقوق (ای سی ایچ آر) نے ترکی سے اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت نے اکتوبر 2021 کے ایک فیصلے میں کہا،''اس طرح کے قوانین عوامی مفادات جیسے حساس معاملات پر آزادی اظہارِ رائے محدود کرنے کا سبب بنتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

ترک فنکار بھی اس قانون کا نشانہ بن رہے ہیں

گزشتہ ہفتے ترک پاپ گلوکارہ سیزن اکسو کو نئے سال کے موقع پر اپنے یوٹیوب چینل پر ’ہاؤ ونڈرفل ٹو بی الائیو‘ کے نام سے پانچ سال پرانا گانا شیئر کرنے کے بعد حکومت کے حامی اسلام پسند گروپوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اکسو پر ان کے گانے میں 'ہم سیدھے تباہی کی طرف جا رہے ہیں آدم اور حوا کو ہیلو کہو‘ گانے پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔ صدر ایردوگان نے بعد ازاں گلوکارہ اور نغمہ نگار کو کھلی دھمکی دی۔

Published: undefined

صدرطیب ایردوآن نے نمازِ جمعہ کے موقع پر کسی کا نام لیے بغیر کہا،''کوئی بھی ہمارے نبی آدم کو بدنام نہیں کر سکتا۔ ان زبانوں کو روکنا ہمارا فرض ہے۔ کوئی بھی ہماری ماں حوا کو یہ الفاظ نہیں کہہ سکتا ہے۔‘‘ ترکی کےوزارت برائے مذہبی أمور، جو ترکی میں صدر کے دور میں سیاسی معاملات میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں، نے اس گانے کے خلاف ایک بیان میں کہا کہ ''اسلام کی ممتاز مقدس شخصیات کے بارے میں بات کرتے وقت ہر جملے میں انتہائی محتاط اور حساس ہونا چاہیے۔‘‘ اسی دوران ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں وکلاء کے ایک گروہ نے بھی سیزن اکسو کے خلاف 'مذہبی اقدار کی توہین‘ کے الزام میں ایک شکایت درج کرائی۔

Published: undefined

’مستقبل کی یکطرفہ بیان بازی کا ایک جائزہ‘

68 سالہ گلوکارہ اکسو نے ان دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہنٹر کے نام سے ایک نئی نظم عوام کے ساتھ شئیر کی جس کا موضوع تھا 'تم میری زبان کو کچل نہیں سکتے۔‘ اس نظم نے راتوں رات مقبولیت حاصل کی اور سوشل میڈیا صارفین نے ایک ہی رات میں اس نظم کا 35 مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ گلوکارہ نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا، ''میں 47 سالوں سے لکھ رہی ہوں اور میں لکھتی رہوں گی۔‘‘ صحافی صدف کباس کی طرح، ترکی کی پاپ کوئین کو بھی اپوزیشن بشمول سیاستدانوں کی جانب سے بھی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

Published: undefined

استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو جن کا تعلق ترکی کی مرکزی اپوزیشن پارٹی سی پی ایچ سے ہے نے اپنے ایک ٹویٹ لکھا، ''فنکار بولیں گے، انہیں خاموش نہیں کیا جاسکتا۔‘‘استنبول بلجی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ایمرے ایردوآن کے مطابق اے کے پارٹی کے ووٹر بیس کو مضبوط کرنے کے لیے کئی نسلوں سے مقبول گلوکارہ اکسو پرقانونی حملہ کرنا کوئی معقول طریقہ نہیں ہے۔ ان کاکہا تھا، ''اس تمام بحث کو اسلامی اقدار پر حملہ قرار دینا، آزادی اظہار رائے پر حملے کے خیالات کو تقویت ملتی ہے۔‘‘

Published: undefined

سوشل میڈیا: عوامی تنازعات کے لیے میدانِ جنگ

2013 میں غازی پارک میں ہونے والے احتجاج کے بعد ایردوآن کی جانب سے متنازعہ بیانات میں اضافہ دیکھا گیا۔ غازی پارک مظاہروں میں ہزاروں افراد نے حکومت کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ ایردوآن کی جماعت کے قوم پرست موومنٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کے بعد انہوں نے پولرائزیشن کی اپنی پالیسیوں اور اسلام پسند گفتگو کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ صحافی سیدف کباس کی حراست اور گلوکارہ سیزن اکسو کے خلاف کاروائی اسی سیاسی تقسیم کی عکاسی کرتی ہیں۔ ترکی میں، جہاں معاشرہ نہایت منقسم ہے۔ سوشل میڈیا ایک سیاسی میدان جنگ کے طور پر کام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر حکومت کے حامیوں نے صحافی اور گلوکارہ کے خلاف ٹویٹ کرنا شروع کر دیے ہیں۔

Published: undefined

چونکہ ترکی میں مہنگائی عروج پر ہے اور ترک عوام کو شدید معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ کچھ اپوزیشن حلقے اس حالیہ پیش رفت کو حکومت کی جانب سے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کا ایک حربہ قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب یہ دلیل بھی سامنے آرہی ہے کہ افراتفری میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے ایردوآن ’مذہبی کارڈ‘ استعمال کر رہے ہیں تاکہ اقتصادی بحران کے صورتحال میں 'مذہبی آمریتی طرز‘ سے کام چلایا جائے۔

Published: undefined

ماہر بشریات اور صحافی آئز کودار تاہم ایک الگ نظریہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سیاسی ایجنڈے کو تبدیل کرنے یا عوامی بحث کا رخ بدلنے کے لیے لیا گیا قدم نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''صدر اپنے حامیوں کو باور کروا رہے ہیں کہ میں آپ سے ترقی ضرور چھین رہا ہوں، مگر آپ کے مذہبی جذبات کی حفاظت ملک کا سب سے بڑا سیاسی عہدہ کر رہا ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined