سماج

بھارت: کشمیر کے متنازعہ نقشے پر ٹویٹر کے خلاف مقدمہ درج

ٹویٹر نے گو کہ اپنی ویب سائٹ سے اب کشمیر کا ایک آزاد علیحدہ ریاست کا مبینہ ہٹا دیا ہے اس کے باوجود اس کے خلاف ایک کیس درج کیا گیا ہے۔ پچھلے چند دنوں کے دوران بھارت میں ٹویٹر کے خلاف یہ دوسرا کیس ہے۔

بھارت: کشمیر کے متنازعہ نقشے پر ٹویٹر کے خلاف مقدمہ
بھارت: کشمیر کے متنازعہ نقشے پر ٹویٹر کے خلاف مقدمہ 

بھارتی حکومت اور سوشل میڈیا کی مقبول ویب سائٹ ٹویٹر کے درمیان جاری رسہ کشی کے دوران بھارت کا متنازعہ نقشہ پیش کرنے کے الزام میں ٹویٹر کے خلاف ریاست اتر پردیش میں ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اس مرتبہ بھی بھارت میں ٹویٹر کے سربراہ منیش مہیشوری کے خلاف نامزد رپورٹ درج کی گئی ہے۔ چند روز قبل بھی ایک مبینہ فیک نیوز کے حوالے سے بھی انہیں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

Published: undefined

تازہ معاملہ کیا ہے؟

حال ہی میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ ٹویٹر نے کیریئر سے متعلق اپنے صفحے ''ٹویپ لائف'' پر دنیا کا جو نقشہ شائع کر رکھا ہے اس میں لداخ سمیت جموں و کشمیر کے پورے متنازعہ علاقے کو بھارت سے الگ ایک علیحدہ آزاد ریاست کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس پر بھارتی حکومت اور عوام کے سخت رد عمل کے بعد ٹویٹر نے 28 جون پیر کے روز اپنی ویب سائٹ سے اس متنازعہ نقشے کو ہٹا لیا تھا۔

Published: undefined

ٹویٹر کے خلاف شدت پسند ہندو تنظیم بجرنگ دل سے وابستہ ایک سرکردہ کارکن پروین بھاٹی نے اترپردیش کے بلند شہر میں مقدمہ درج کر وایا ہے۔ انہوں نے اپنی شکایت میں کہا ہے، ''غداری کا یہ عمل جان بوجھ کر کیا گیا ہے اور اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔''

Published: undefined

پروین بھاٹی نے بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ دنیا کے، ''نقشے میں لداخ، جموں اور کشمیر کو بھارت کے حصے کے طور پر نہیں دکھایا گیا ہے۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے۔ اس سے مجھ سمیت تمام بھارتی عوام کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔''

Published: undefined

ماضی میں بھی کشمیر کو بھارت سے الگ دکھانے کے واقعات

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق مودی کی حکومت بھی اس ضمن میں ٹویٹر کو ایک نوٹس جاری کر کے اس سے یہ وضاحت طلب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کہ آخر وہ اپنی ویب سائٹ پر بھارتی حکومت سے منظور شدہ نقشے کے بجائے اپنی پسند کا نقشہ کیوں شائع کرتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس سے قبل بھی اس سلسلے میں ٹویٹر کو ایک میل بھیجی گئی تھی تاہم ٹویٹر نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

Published: undefined

تازہ واقعہ ایسا تیسرا موقع ہے جب ٹویٹر نے متنازعہ علاقے جموں کشمیر اور لداخ کو بھارتی حکومت کے موقف کے برعکس پیش کیا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر نومبر میں بھی لداخ کی جنگی تاریخوں سے متعلق جب ایک لائیو پروگرام پیش ہو رہا تھا تو اس میں بھی ٹویٹر کی جیو ٹیگنگ میں لداخ کو چین کا حصہ بتایا گیا تھا۔

Published: undefined

بعد میں ٹویٹر نے اس کے لیے معذرت پیش کی تھی تاہم اس کے کچھ دن بعد ہی ٹویٹر نے لداخ کو ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ بتانے کے بجائے کشمیر کا حصہ بتایا تھا۔ بھارتی حکام نے اس پر شدید ناراضگی ظاہر کی تھی۔

Published: undefined

گزشتہ برس سعودی عرب نے جی 20 کانفرنس کی میزبانی کی یاد گار کے طور پراپنا 20 ریال کا جو نیا کرنسی نوٹ شائع کیا تھا اس میں بھی دنیا کا جو نقشہ ہے اس میں لداخ سمیت پورے خطہ کشمیر کو بھارت سے الگ ایک علیحدہ ریاست کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ بھارت نے اس پر بھی یہ کہہ کر سخت اعتراض کیا تھا کہ ایک دوست ملک سے اسے ایسی توقع نہیں تھی۔

Published: undefined

ٹویٹر نشانے پر کیوں ہے؟

امریکی کمپنی ٹویٹر اور بھارت سرکار کے درمیان ایک عرصے سے رسہ کشی جاری ہے۔ حکومت نے تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کو نئے آئی ٹی ضابطوں پر عمل کرنے اور اس کے بارے میں متعلقہ عہدیداروں کو آگاہ کرنے کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا تھا۔ متعدد کمپنیوں نے لاک ڈاون اور دیگر تکنیکی مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے ان ضابطوں پر عمل کرنے میں تاخیر کے لیے معذرت کی تھی۔تاہم ٹویٹر نے آخری تاریخ 25 مئی تک حکومت کو کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

Published: undefined

گزشتہ ماہ کے اواخر میں ٹویٹر نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان اور پارٹی کے ایک نائب صدر کی طرف سے اپوزیشن کانگریس کے مبینہ ٹول کٹ کے سلسلے میں کیے گئے ٹویٹ پر manipulated media کا ٹیگ لگا دیا تھا جبکہ اس ماہ کے اوائل میں بھارت کے نائب صدر وینکیانائیڈو اور بی جے پی کی مربی تنظیم ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس کے سربراہ کا بلیو ٹک ختم کر دیا تھا۔

Published: undefined

پولیس نے ٹول کٹ معاملے میں ٹویٹر کے دفتر پر مبینہ چھاپے بھی مارے تھے حالانکہ بعد میں دہلی پولیس نے وضاحت کی کہ وہ امریکی کمپنی کو ایک نوٹس دینے گئی تھی۔ لیکن پولیس اس سوال کا جواب نہیں دے سکی کہ نوٹس دینے کے لیے بیس افراد کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟

Published: undefined

مودی حکومت کا کہنا ہے کہ فیس بک، گوکل اور ٹویٹر جیسے بیرونی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھارت کے نئے آئی ٹی اصول و ضوابط پر عمل میں کوتاہی سے کام لے رہے ہیں۔ اسی لیے ان میں سے کئی اداروں کے سربراہان کو پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیا ہے۔

Published: undefined

اس ضمن میں ٹویٹر کے حکام پہلے بھی دوبار پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں اور امکان ہے کہ اس بار کی پیشی میں ان کمپنیوں کی سختی سے سرزنش کی جائے گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined