سماج

یورپی عہد وسطیٰ میں حق کی جنگ

آج بھی مغرب اور مشرق کے درمیان سیاسی، معاشی اور نظریاتی تنازعات قوموں کے ذہن کو جنگ کے خوف میں مبتلا رکھتے ہوئے مہلک سے مہلک اسلحے کی تیاری کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

یورپی عہد وسطیٰ میں حق کی جنگ
یورپی عہد وسطیٰ میں حق کی جنگ 

مفکرین اس پر بحث کرتے چلے آئے ہیں کہ کیا دنیا سے جنگ کاخاتمہ ممکن ہے؟ کچھ کا خیال تھا کہ اگر ریپبلکن نظام دنیا میں قائم ہو جائے تو اس کے نتیجے میں جنگ کاخاتمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ آج بھی مغرب اور مشرق کے درمیان سیاسی، معاشی اور نظریاتی تنازعات قوموں کے ذہن کو جنگ کے خوف میں مبتلا رکھتے ہوئے مہلک سے مہلک اسلحے کی تیاری کا باعث بنے ہوئے ہیں اورماضی کے مقابلے میں حال اور مستقبل میں ہونے والی جنگیں اس دنیا کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔

Published: undefined

حق کی جنگ کے نظریات یونان اور روم کے بعد یورپی عہد وسطیٰ میں آئے اور ان کی بنیاد پر حق کی جنگ کے تصورات میں تبدیلی آئی۔ عیسائیت کے ابتدائی دورمیں اس کی تشریح کرنے والے راہب اور چرچ کے عہدیدار تھے۔ کیونکہ عیسائی مذہب کو پرامن کہا جاتا تھا۔ اس لیے ان کے لیے یہ مشکل تھا کہ جنگ کو کیسے جائز کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے مختلف تاویلوں کا سہارا لیا گیا۔ مثلاً یہودیوں کی مذہبی کتاب Old Testament ''عہد نامہ عتیق‘‘ سے یہ واقعہ پیش کیا گیا کہ جب یہودی فلسطین جارہے تھے تو کچھ قبائل نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ اس پر خدا کا یہ حکم نازل ہوا کہ ان سے جنگ کرو اور چن چن کر ان کو قتل کر ڈالو۔ دوسرا حکم یہ تھا کہ مردوں کو قتل کرو اور عورتوں کو کنیزیں بنا لو۔ اس کے بعد بائبل میں ایسے واقعات کو تلاش کیا گیا کہ جن میں جنگ کا ذکر ہو اور جنگ کو امن کا سبب بتایا گیا ہو۔

Published: undefined

ایمبروز میلان شہر کا بشپ تھا، جس نے اٹلی کے بادشاہ کے خلاف یہ فتویٰ دیا تھا کہ اس نے جنگ میں شہریوں کا قتل عام کیا ہے۔ اس پر بادشاہ نے اعتراف جرم کیا۔ جس پر اسے معافی دی گئی۔ پانچویں صدی عیسوی میں سینٹ آگستین نے حق کی جنگ کے بارے میں اپنے خیالات کو پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق جنگ میں لڑنے والوں کے ساتھ ان کے حامیوں کو بھی قتل کرنا جائز ہے۔ وہ اس پر بھی اسرار کرتا ہے کہ جب کسی قلعے کا محاصرہ کیا جائے توقلعے میں رہنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کر دینا چاہیے۔ وہ اس کابھی حامی ہے کہ شکست کے بعد مخالف فوج کے فوجیوں کو زندہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ قتل عام کے بارے میں اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر مخالفین کو زندہ چھوڑ دیا گیا تو وہ پھر خطرے کا باعث ہوں گے۔

Published: undefined

سینٹ آگستین کے بعد حق کی جنگ کے بارے میں مزید تبدیلیاں آئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ زیادہ تر جنگیں عیسائی ملکوں کے درمیان ہوتی تھیں، جن میں دونوں جانب سے ہم مذہب لوگوں کا قتل ہوتا تھا۔ اس قتل عام کو روکنے کے لئے چرچ کے عہدیداروں نے کچھ شرائط عائد کیں۔ مثلاً مذہبی رہنما جن میں راہب اور ننیں شامل تھیں ان کی حفاظت کی جائے گی۔ چرچ کی جائیداد کو نہیں لوٹا جائے گا۔ وہ لوگ جو ہتھیار بند نہیں، ان کو معاف کر دیا جائے گا، کسی عیسائی کو غلام نہیں بنایا جائے گا۔ خاص طور سے یہ شرائط نائٹس کے لئے تھیں جو اپنی بہادری پر فخر کرتے تھے اور نہتے دشمن پر حملہ نہیں کرتے تھے۔حق کی جنگ کے لئے یہ ضروری تھا کہ یہ مال و دولت کے لالچ کے لیے نہ ہو اور اسی وقت لڑی جائے جب دشمن نے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو یا اس کی جانب سے حملے کا خطرہ ہو۔ اس صورت میں جنگ کر کے انتقام لینا چاہیے اور دشمن کے خطرے کو قتل و غارت گری کے ذریعے ختم کر دینا چاہئے۔

Published: undefined

عیسائیت کے ایک مفکر اور راہنما تھامیس ایکواناس نے حق کی جنگ کے بارے میں یہ رائے دی تھی کہ جنگ کرنے والے کے پاس جائز طاقت ہو اور اس کا مقصد نیک ہو اور وہ جنگ کے ذریعے مذہبی نظام کو قائم کرے۔ عہد وسطیٰ کے مفکرین کی نظر میں وہ جنگ حق نہیں ہے، جو مال و دولت زمینوں پر قبضے اور حکمرانوں اور جرنیلوں کی شان و شوکت کے لیے لڑی جائے۔

Published: undefined

سولہویں صدی میں رینے ساں کے زمانے میں فلورنس کا شہر دانشوروں کی جماعت کا مرکز بن گیا تھا۔ اس کے سیاست دان رومی عہد کی روایات کو ترجیح دے کر جنگ کے بارے میں بھی اپنا رویہ بدل رہے تھے۔ خاص طور سے جب نیکول میکاولی آیا اس نے سیاست کو بدل ڈالا۔ وہ پکا قوم پرست تھا اور اٹلی کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے قومی ملیشیا کی تشکیل کی تاکہ اس کی مدد سے آزادی کی جنگ لڑی جائے۔ لیکن اس کو اس لیے ناکامی ہوئی کیونکہ میڈیچی خاندان اسپین کی مدد سے اقتدار میں آگیا اور میکاولی کو جلا وطن ہونا پڑا۔

Published: undefined

عہد وسطیٰ کے ایک مفکر نے رومی سلطنت کے زوال کی وجوہات بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ رومیوں کا زوال اس وقت شروع ہوا، جب اس کی فونیقیوں سے جنگیں ختم ہوئی۔ اس کے بعد اس کی فوج میں کرائے کے فوجی آگئے جو لوٹ مار کی خاطر لڑتے تھے۔ جن کا کوئی اعلیٰ مقصد نہیں تھا۔ رومی اس وقت مزید کمزور ہوئے، جب انہوں نے ایک سو چپھیالیس قبل از مسیح میں کارتھیج کو تباہ کیا۔ جب رومیوں کے لیے کوئی دُشمن نہ رہا تو ان کا جنگی جذبہ کم ہوتا چلا گیا۔ لہٰذا مفکرین کی یہ رائے ہے کہ جنگ کے لئے دُشمن کا ہونا ضروری ہے۔ دیسی دیرایوس ایراسمس نے اگرچہ جنگ کی تو مخالفت کی ہے مگر وہ اس کا حامی ہے کہ عزت، دفاع اور حملہ آور کو روکنے کے لیے جنگ کرنا چاہییے۔

Published: undefined

جب اسپین نے جنوبی امریکہ کو فتح کیا تو اس کے مذہبی رہنمائوں میں اس پر بحث ہوئی کہ مقامی لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے۔ ایک جماعت وہ تھی، جس نے ارسطو کے نظریے کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہا کہ مقامی باشندے غیر مہذب، جاہل اورملحد ہیں۔ اس لیے ان کے خلاف جنگ کر کے ان کا خاتمہ کر دیا جائے۔ دوسری جماعت نے ارسطو کے نظریے کو رد کرتے ہوئے اس پر زور دیا کہ یہ سب خدا کے بندے ہیں اور ان کے ساتھ رواداری کا سلوک کرنا چاہیے۔

Published: undefined

جب یورپی اقوام نے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں پر قبضہ کیا توان کے خلاف جنگ کو جائز قرار دیتے ہوئے یہ دلیل دی کہ وہ انہیں مہذب بنانا چاہتے ہیں اور ان کو معاشی اورسماجی پسماندگی سے نکال کر ترقی کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ جب اٹھارویں صدی میں امریکہ آزاد ہوا اور 1789ء میں فرانسیسی انقلاب آیا تو ان دونوں ملکوں میں جنگ کے بارے میں نظریات بدل گئے۔ امریکہ کی خانہ جنگی ملک کو متحد رکھنے اور غلامی کے خاتمے کے لیے تھی جبکہ فرانس نے جنگ کے ذریعے یورپ میں انقلابی نظریات کو پھیلایا۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined