سماج

کرپشن الزامات، جرمن پبلک میڈیا زیربحث

برلن کے پبلک براڈکاسٹر آر بی بی کی ڈائریکٹر پیٹریشیا شلیزنگر کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات کے تناظر میں مستعفی ہو گئی ہیں تاہم جرمنی میں عوامی نشریاتی اداروں کے حوالے سے بحث تیز ہو گئی ہے۔

کرپشن الزامات، جرمن پبلک میڈیا زیربحث
کرپشن الزامات، جرمن پبلک میڈیا زیربحث 

پیٹریشیا شلیزنگر کے خلاف عائد کردہ الزامات کی فہرست خاصی لمبی ہے۔ وہ ابھی کچھ روز قبل تک علاقائی پبلک براڈکاسٹر RBB (ریڈیو برلن برانڈن برگ) کی ڈائریکٹر تھیں جب کہ جرمنی کے قومی سطح پر نو علاقائی براڈکاسٹرز اور ڈوئچے ویلے کی گردشی سربراہی پر بھی فائز تھیں۔

Published: undefined

جرمنی میں پبلک نشریاتی اداروں کے لیے فی گھرانا ماہانہ 18.36 یورو کی لازمی فیس وصول کی جاتی ہے۔ ایسے میں کرپشن اسکینڈل نے جرمنی میں پبلک براڈکاسٹنگ کے شبعے میں تبدیلیوں کے مطالبات کو مہمیز دی ہے۔ شلیزنگر پر الزامات ہیں کہ انہوں نے مشکوک انداز سے سرمائے کا استعمال کیا جب کہ کنسلٹنسی کانٹریکٹ بھی متنازعہ انداز سے دیے۔

Published: undefined

گہرا تعلق

کچھ ہفتے قبل جرمن اخبار ''بزنس انسائیڈر‘‘ نے شلیزنگر اور ان کے شوہر گیئرہارڈ شپؤرل کے کاروباری معاملات میں 'عدم تسلسل‘ کا دعویٰ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک الزام یہ تھا کہ ایک لاکھ یورو کا ایک کنسلٹنسی کانٹریکٹ شپرؤل کو دارالحکومت برلن میں تجارتی نمائش (برلن ٹریڈ فیئر) کے سلسلے میں دیا گیا۔ اس تجارتی نمائش کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر وولف ڈِیٹر وولف، شیلزنگر کے نشریاتی ادارے آر بی بی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل تھے۔ اخبار کے مطابق وولف نے اس سلسلے میں ذاتی حمایت کے ذریعے شپرؤل کو یہ متنازعہ کانٹریکٹ دلوانے میں مدد کی۔

Published: undefined

اس کے بعد شیلزنگر کے حوالے سے متعدد دیگر معاملات بھی سامنے آتے چلے گئے۔ اس سلسلے میں ابتدا میں اخبار بزنس انسائیڈر ہی نے تحقیقی کام کو آگے بڑھایا۔

Published: undefined

پرتعیش زندگی

شیلزنگر جو خود اے آر ڈی کی ایک انتہائی معتبر صحافی رہی ہیں، جولائی سے توجہ کا مرکز ہیں۔ بتایا گیا تھا کہ آر بی بی جو اس وقت سخت مالیاتی مسائل کا شکار ہے، اس کی جانب سے شیلزنگر کو تنخواہ پر 16 فیصد زائد بونس ملے یوں ان کی مجموعی سالانہ تنخواہ تین لاکھ تین ہزار یورو تک پہنچ گئی۔ اس پر مزید 20 ہزار کا ایک اضافی بونس بھی انہیں ملا۔ وہ مزید توجہ کا مرکز تب بنیں جب انہیں انتہائی مہنگی کار رینٹل کمپنی سے شوفر کی سروسز لیتے دیکھا گیا جب کہ ان کے پرائیویٹ اپارٹمنٹ میں انتہائی پرتعیش عشائیے دیے گئے۔

Published: undefined

رواں ماہ کے آغاز پر 61 سالہ شیلزنگر نے اے آر ڈی کی ڈائریکٹرشپ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ گزشتہ 70 برسوں میں جرمنی میں پبلک براڈکاسٹنگ کے شعبے میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ تین روز بعد انہوں نے آر بی بی کی سربراہی سے بھی استعفیٰ دے دیا۔

Published: undefined

اس کے دو روز بعد پتا چلا کہ صوبائی پراسیکیوٹرز ان کی بابت بدعنوانی اور بدانتظامی کے معاملات کی چھان بین کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں ان کے شوہر اور وولف بھی آر بی بی کے بورڈ سے مستعفی ہو گئے۔ ان واقعات کے بعد جرمنی میں اے آر ڈی نیٹ ورک اور زیڈ ڈی ایف ٹی وی چینل کی فنڈنگ سے متعلق بحث زور پکڑ گئی۔

Published: undefined

پبلک براڈکاسٹرز کیوں؟

جرمنی میں پبلک براڈکاسٹرز کے لیے پبلک فنڈنگ سے متعلق بحث نئی نہیں ہے۔ قومی سطح پر عوامی رائے کے حوالے سے جتنا اثر ورسوخ ان نشریاتی اداروں کا ہے، اس پر بھی کئی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ کووِڈ کے وبائی دنوں میں ویکسینیشن اور وبائی پابندیوں کے حق میں رپورٹنگ پر بعض حلقوں نے ان نشریاتی اداروں پر شدید تنقید کی تھی جب کہ ان پر 'ایجنڈے کے تحت حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنے‘ تک کے الزامات عائد کیے گئے۔

Published: undefined

دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی کی شکست کے بعد مغربی اتحادیوں امریکا، فرانس اور برطانیہ نے جرمنی میں پبلک براڈکاسٹنگ نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کا مقصد آزاد اور شفاف رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی تھی اور میڈیا سے حکومتی اثرورسوخ میں کمی تھا۔

Published: undefined

اس نظام کے تحت نشریاتی نظام کے لیے سرمایہ حکومت سے لینے کی بجائے فیس کی صورت میں عوام سے لیا جاتا ہے اور اسی لیے ان کا انتظام و انصرام بھی حکومت کے پاس نہیں ہوتا۔ اس لازمی فیس کے تناظر میں اس فنڈنگ پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں مگر آزاد رپورٹنگ کی اہمیت کی وجہ سے ان نشریاتی اداروں کی عوام میں پزیرائی بھی موجود رہی ہے۔

Published: undefined

جرمنی کے ایک اہم صحافی اشٹیفان نیگیمائر نے تاہم معروف ٹی وی پروگرام ٹاگیس تھیمن کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ شلیزنگر اسکینڈل کی وجہ سے جرمنی میں پبلک براڈکاسٹنگ کو 'شدید نقصان‘ پہنچا ہے اور اب اس نظام کی بابت پہلے سے جاری بحث میں مزید شدت پیدا ہو گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined