سماج

سیاست اور تجارت کامیل ایک خوفناک کھیل!

سازشی نظریات اور آزادئ اظہار کے سہارے سے انتہا پسند سیاستدان اور غیر تحقیق شدہ مواد یا مصنوعات کو بیچنے والوں کی ایک بڑی تعداد صارفین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔

کیا سازشی نظریات سے پیسہ بھی کمایا جا سکتا ہے؟
کیا سازشی نظریات سے پیسہ بھی کمایا جا سکتا ہے؟ 

امریکی ریاست میساچوسٹس میں قائم میریمیک کالج کی خاتون لیکچرار زو شیرمین کا کہنا ہے کہ کسی بھی شے کی قیمت اصل میں شائقین کی وہ محنت ہے، جو وہ اسے دیکھنے میں چکاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ شائقین کی توجہ کا پیدا ہونا بھی ایک اہم سرگرمی ہوتی ہے، جو کسی بھی اظہاریے کے لیے بہت ضروری ہے۔ شیرمین کے مطابق میڈیا انڈسٹری لوگوں کو اشتہارات دکھا کر ہی سرمایا اکٹھا کرتی ہے۔

Published: undefined

سیاست اور تجارت

Published: undefined

سیاست اور تجارت جب ایک ساتھ مل جاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ اس کا مظاہرہ رواں برس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں چھ جنوری کو دیکھا گیا۔ اس حیران کن صورت حال میں عوامی مفاد کو بھی میڈیا نے واضح طور پر استعمال کیا۔

Published: undefined

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق میڈیا انڈسٹری نے ان منفی حالات کو اپنی مارکیٹنگ اور تفریحی پروگراموں کا ذریعہ بھی بنایا۔ سیاسی مبصرین یاروسلاو کوئیسس اور کیرولینا ویگورا نے اس صورت حال کے لیے ایک نئی اصطلاح 'پاپولسٹینمنٹ‘ (Populistainment) متعارف کرائی ہے۔

Published: undefined

پاپولسٹینمنٹ

Published: undefined

پاپولسٹینمنٹ کی اصطلاح عوامیت پسندی (Populism) اور تفریح (Entertainment) کے اشتراک سے تخلیق کی گئی ہے۔ تجزیہ کار کیرولینا ویگورا کا کہنا ہے کہ کئی سیاستدان پاپولسٹینمنٹ کا خاصا استعمال ویسے ہی کرتے ہیں جیسے مارکیٹ میں کسی شے کی طلب ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس میں سیاسی مواد کو پروڈکٹ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور مختلف میڈیا پلیٹ فارم اس پروڈکٹ کے لیے سپلائی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ویگورا کے مطابق میڈیا کمپنیاں صورت حال کے مطابق اپنی پوزیشنیں تبدیل کرتی رہتی ہیں۔

Published: undefined

نظریاتی کاروبار کے مالکان

Published: undefined

انٹرنیٹ کے دور میں کئی افراد کے نظریات کو بھی مارکیٹ کی پسندیدہ جنس کی حیثیت حاصل رہتی ہے۔ ایسے افراد میں خاص طور پر قدامت پسند امریکی سیاسی مبصرین گلین بیک اور آلیکس جونز کے نام خاص طور پر لیے جا سکتے ہیں۔ زو شیرمین ایسے سیاسی مبصرین کو نظریاتی اینٹرپرینیور (Ideological Entrepreneurs) قرار دیتی ہیں۔ سن 2017 اور 2018 میں اپنی مقبولیت کی بلندی پر دائیں بازو کے نظریات کے مبصر آلیکس جونز کے سامعین کی ہفتہ وار تعداد بیس لاکھ سے زائد ہوا کرتی تھی۔

Published: undefined

جونز کا ریڈیو شو انتہائی مقبول تھا اور اس پر اور ان کی ویب سائٹ انفووارز ڈاٹ کوم (Infowars.com) کو کلک کرنے والوں کی ماہانہ تعداد بھی بیس لاکھ سے زیادہ رہتی تھی۔ آلیکس جوننز کو سازشی نظریات کا ماہر بھی خیال کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

شائقین اور سامعین کا جھکاؤ

Published: undefined

جونز کے کاروبار کی بنیاد خوف کی ایسی ہی افزائش پر تھی جیسے مارکیٹ میں کسی نئی پروڈکٹ کی اشتہاری مہم ہوتی ہے۔ اتنے لاکھوں شائقین انتہائی کم پیسے بھی پروگرام سننے کے لیے ادا کریں تو حاصل ہونے والی رقم کا سالانہ حجم کروڑوں ڈالر بنتا ہے۔ آلیکس جونز کو امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایجنسی نے ایک ٹوتھ پیسٹ کے استعمال کی ترغیب پر تادیبی نوٹس بھی بھیجا تھا کہ وہ کیمیائی شواہد کے بغیر اس ٹوتھ پیسٹ کی مشہوری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی وہ اب کورونا ویکسین کے خلاف مہم چلائے ہوئے ہیں اور اسے فراڈ کہتے ہیں۔ جونز ویکسین کو 'لبرل اشرافیہ‘ کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

Published: undefined

آزادئ اظہار کا نظام اور کاروبار

Published: undefined

جرمن جریدے ڈئر اشپیگل کے مطابق سن 2018 تک آلیکس جونز کی اپنی ویب سائیٹ انفو وارز سے آمدن اسی فیصد سے زائد تھی۔

Published: undefined

سازشی نظریات کی شرح کرنے والے بلاگر روپرٹ کوک کا کہنا ہے کہ سازشی نظریات اور آزادئ اظہار کے سہارے سے انتہا پسند سیاستدان اور غیر تحقیق شدہ مواد یا مصنوعات کو بیچنے والوں کی ایک بڑی تعداد صارفین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہ صارفین سائنسی تحقیقی عمل سے واقفیت رکھنے کے باوجود سازشی نظریات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

Published: undefined

امریکی شہر فلاڈیلفیا میں قائم ڈریکسل یونیورسٹی سے منسلک ہلڈی وان ڈیئر بلک نے آلیکس جونز جیسے سیاستدانوں کو 'اسمارٹ بزنس مین‘ قرار دینے کے ساتھ مفاد پرست بھی کہا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ آلیکس جونز کے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بھی مراسم تھے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined