سماج

پاکستان میں ٹیکنوکریٹس کی عبوری حکومت، شوشہ کس نے اور کیوں چھوڑا؟

تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹیکنوکریٹس کی عبوری حکومت کا شوشہ چھوڑ کر عمران کو پیغام دیا ہے کہ وہ نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے سے باز رہیں۔ کیا یہ اگلے لائحہ عمل کے لیے عوامی رد عمل جاننے کا ذریعہ ہے۔

<div class="paragraphs"><p>پاکستان میں ٹیکنوکریٹس کی عبوری حکومت، شوشہ کس نے اور کیوں چھوڑا؟</p></div>

پاکستان میں ٹیکنوکریٹس کی عبوری حکومت، شوشہ کس نے اور کیوں چھوڑا؟

 

پاکستان میں طویل مدت کے لیے قائم کی جانے والی ٹیکنوکریٹس کی ممکنہ عبوری حکومت پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ اگرچہ سنجیدہ تجزیہ نگار اس تجویز کو غیر آئینی اور ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں لیکن بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر بڑھتے ہوئے شورغل سے لگتا ہے سیاست کی دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔

Published: undefined

پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم کہتے ہیں کہ کسی منتخب حکومت کی موجودگی میں طویل المدتی عبوری حکومت کا قیام ایک غیر آئینی اقدام ہوگا اور کوئی عدالت اس کا دفاع نہیں کر سکے گی۔ ان کے نزدیک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی سیاسی اتفاق رائے کے بغیر کسی ایسے اقدام کی حمایت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ''یہ محض آپس میں دست و گریباں سیاست دانوں پر دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہو سکتا ہے کہ وہ آپس میں بات چیت کرکے مسائل کے حل کی طرف آئیں۔ وگرنہ دوسرے آپشنز بھی زیر غور لائے جا سکتے ہیں‘‘۔

Published: undefined

امتیاز عالم کو یقین ہے کہ اس طرح کی عبوری حکومت کو سیاسی جماعتوں اور عوام سمیت کوئی نہیں مانے گا۔آئی ایم ایف بھی ایسی حکومت سے بات چیت نہیں کرے گا۔ ان کے خیال میں صرف مارشل لا کے ذریعے ہی اس تجویز کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے اور اس وقت ملک میں مارشل لا لگنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

Published: undefined

امتیاز عالم کے بقول ایم کیو ایم کو کون اکھٹا کر رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی کس نے تحلیل نہیں ہونے دی۔ عمران خان اپنے اوپر ہونے والے حملے کی ایف آئی آر کیوں درج نہیں کروا سکے۔ پی ٹی آئی کے استعفے کیوں نہیں منظور ہو رہے۔ '' یہ سارے خاموش پیغامات ہیں کہ سسٹم کو ڈی ریل کرنے کی بجائے سسٹم کے اندر رہ کر ملکی مسائل حل کیے جائیں۔ جو لوگ ان میسجز کو سمجھتے ہیں ان کے لیے ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی تجویز حیرانگی کا باعث نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ امتیاز عالم کے بقول اب صرف جنرل الیکشن ہوں گے اور اگر سیاست دان ان انتخابات کے حوالے سے متفق نہ ہو سکے تو پھر اگلے الیکشنز بھی متنازعہ ہو جائیں گے اور نیا وزیراعظم بھی معاشی مسائل نہیں حل کر پائے گا۔

Published: undefined

معروف تجزیہ کار نسیم زہرہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی تجویز میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاست میں ماضی کی طرح کی مداخلت ممکن نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہمیں مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماوں کی طرف سے سیاسی عزم کیوں نظر نہیں آ رہا ہے۔'' اصل میں پاکستان کی معیشت کی خرابی کے اثرات دفاعی امور پر بھی پڑتے ہیں اور معیشت خراب ہو تو اسٹیبلشمنٹ بھی متحرک ہو جاتی ہے پھر شبر زیدی اور حفیظ پاشا سے ملاقاتیں ہوتی ہیں اور بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو میڈیا میں تاثر دیا جا رہا ہے‘‘۔

Published: undefined

نسیم زہرہ کی رائے میں اگر سیاست دانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر نئے انتخابات کے بعد بھی سیاسی عدم استحکام کو ختم نہیں کیا جا سکے گا۔

Published: undefined

دفاعی تجزیہ کار برگیڈئیر(ر) فارووق حمید خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا آئیڈیا بہت پرانا ہے جب بھی حکومت وقت ناکام ہوتی ہے اور معاشی و سیاسی بحران بڑھتا ہے تو ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں۔

Published: undefined

فارووق حمید کہتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اپنے مشکل فیصلوں کا ملبہ عبوری حکومت پر گرانے کے لیے عبوری حکومت کا شوشہ چھوڑ رہی ہے۔ یاد رہے پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر کہہ چکے ہیں کہ ایک حکومتی شخصیت نے انہیں عبوری حکومت میں شامل ہونے کی پیشکش کی ہے۔ معاشی ماہر شبر زیدی اور عمران خان بھی ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا عندیہ دے چکے ہیں۔ فاروق حمید کہتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ نے ایسی حکومت کی اجازت دینے کے لیے قانون سازی کی تو یہ این آر ٹو جیسی قانون سازی سمجھی جائے گی۔

Published: undefined

فاروق حمید کے مطابق ٹیکنوکریٹس کی حکومت ملکی مسائل حل نہیں کر سکتی ملکی بحران کے خاتمے کے لیے فوری عام انتخابات کا ہونا ضروری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ٹیکنوکریٹس کی حکومت کو ان کی کامیابی کا راستہ روکنے کی سازش قرار دیتے ہوئے مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

Published: undefined

فاروق حمید کہتے ہیں کہ ٹیکنوکریٹس کے لئے جن افراد کے نام سامنے آ رہے ہیں وہ وہی بار بار آزمائی ہوئی وہی شخصیات ہیں جو ماضی میں بھی ایسے سیٹ اپ کا حصہ بنتی رہی ہیں۔ ان کے بقول اگر عبوری سیٹ اپ لانا ہی ہے تو اس میں اچھی شہرت کی حامل ایسی شخصیات کو شامل کیا جانا چاہیے جو ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔

Published: undefined

سینئر صحافی نصرت جاوید نے اس موضوع پر لکھے گئے اپنے ایک حالیہ کالم میں اسلام آباد میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کی منسوخی پر ہونے والے کمزور عوامی احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارے عوام خود کو آج بھی'رعایا‘ ہی تصور کرتے ہیں جو'سلطانی مزاج‘ کی مزاحمت کوآمادہ نہیں۔ ایسے عالم میں طویل المدت ٹیکنوکریٹ بندوبست کو رد کرنے کی ہمت مجھ میں تو نہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined