سماج

’’اسکول بہت یاد آتا ہے‘‘

کورونا کی وبا کے باعث اسکول بند ہوجانے کے بعد پاکستان میں ایک نیم سرکاری ادارہ بچوں میں ڈجیٹل ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہا ہے لیکن انہیں اس دوران مشکلات بھی ہو رہی ہیں۔

’’اسکول بہت یاد آتا ہے‘‘
’’اسکول بہت یاد آتا ہے‘‘ 

ڈھائی ماہ سے اسکول بند رہنے کے دوران ملک کے بڑے شہروں کے صاحب حیثیت گھرانوں میں بچوں کا بیشتر وقت آئی پیڈ یا سمارٹ فون پر گزر رہا ہے۔ مہنگے پرائیوٹ اسکولوں اور کالجوں کی طرف سے آن لائن کلاسیں بھی جاری ہیں۔ لیکن سرکاری اسکولوں اور دیہی علاقوں میں پڑھائی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے کی برابر ہے۔

Published: undefined

ایسے میں کچھ نیم سرکاری اسکول اور ادارے کورونا کی مصیبت کے دوران پہلی بار ڈجیٹل تعلیم کی طرف راغب ہونے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک میرپورخاص کے گاؤں بھگت گوٹھ کا ''ہوپ ہائی اسکول‘‘ ہے۔ تیرہ سالہ دُعا خاصخیلی اس سکول میں ساتویں کلاس کی طالبہ ہے۔ اس نے ڈی ڈبلیوسے بات کرتے ہوئے بتایا،''جب سے اسکول بند ہوا ہے، میرا زیادہ تر وقت گھر کے کام کاج میں امی کا ہاتھ بٹانے میں گزرتا ہے۔‘‘

Published: undefined

لیکن پھر شام کو پانچ بجے کے بعد واٹس ایپ پر پڑھائی شروع ہوتی ہے۔ وہ اپنے چچا کا سمارٹ فون لے کر صحن میں کھلے آسمان تلے چارپائی پر بیٹھتی ہے اور اسکول ٹیچروں کی طرف سے بھیجے گئے ویڈیو لیکچر دیکھتی ہے اور اپنا ہوم روک واٹس ایپ گروپ پر اپ لوڈ کر دیتی ہے۔

Published: undefined

دعا کے مطابق،''اسکول بہت یاد آتا ہے لیکن اب میں گھر سے ہی پڑھائی کر رہی ہوں اور ٹیچر سے سائنس، انگریزی اور ریاضی سے متعلق سوال کر سکتی ہوں۔‘‘

Published: undefined

ہوپ ہائی اسکول کوئی مہنگا نجی اسکول نہیں بلکہ صوبائی حکومت کے نیم خود مختار ادارے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (ایس ای ایف) کی مالی مدد کے تحت چلتا ہے۔ اسکول کی طرف سے چھٹی سے دسویں جماعت کے لیے الگ الگ واٹس ایپ گروپ بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اب ادارے کی طرف سے مائیکروسافٹ ٹیمز کے ذریعے بھی آن لائن کلاسس کا تجربہ بھی جاری ہے۔

Published: undefined

سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن صوبائی حکومت کا ذیلی ادارہ ہے اور اس کا کام دیہی علاقوں میں پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے ذریعے تعلیم کا فروغ ہے۔ فاؤنڈیشن مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر صوبے میں کوئی دو ہزار اسکول چلا رہی ہے، جہاں پانچ لاکھ بچے پڑھتے ہیں۔

Published: undefined

ماہرین کے مطابق ان نیم سرکاری اسکولوں کی کارکردگی اور معیار سندھ کے سرکاری اسکولوں کی نسبت کہیں زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے۔

Published: undefined

کورونا کے بحران کے دوران، نجی شعبے کی طرح فاؤنڈیشن نے اپنے تعلیمی نظام کو نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشیں تیز کیں اور بچوں کی پڑھائی اور ٹیچرز کی ٹرینگ کے لیے اپنا ڈجیٹل مواد مفت مہیا کیا۔

Published: undefined

صادقہ صلاح الدین فلاحی تنظیم انڈس ریسورس سینٹر کی بانی ہیں اور پچھلے بیس سال سے سندھ کے مختلف اضلاع میں اسکول چلانے کا تجربہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے ملک میں اکثر لوگوں کے پاس آج بھی انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز نہیں ہیں۔ دیہی علاقوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ جن کے پاس سمارٹ فون ہوتے بھی ہیں تو وہ بچوں، اور خاص کر لڑکیوں کو، دینے سے گریز کرتے ہیں۔ ایسے میں ڈجیٹل ٹیکنالوجی کا فائدہ بہت ہی محدود نظر آتا ہے۔‘‘

Published: undefined

پاکستان میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اس کا ایک توڑ یہ نکالا کہ ٹی وی پر بچوں کی تعلیم و تدیس کے پروگرام شروع کیے۔ وفاقی حکومت نے اردو میں پاکستان ٹیلی وژن پر، سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے سندھی میں مہران ٹی وی پر جبکہ پنجاب نے سینکڑوں کیبل آپریٹرز کے ذریعے اپنے پروگرام شروع کیے ہیں۔

Published: undefined

لیکن ماہر تعلیم سلمان نوید کے مطابق یہ ابھی واضح نہیں کہ ٹی وی سے کتنے بچے مستفید ہو رہے ہیں۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس بارے میں ایک سروے کرانے پر غور ہو رہا ہے تاکہ بچوں اور والدین سے پتہ چل سکے کہ وہ یہ پروگرام دیکھ بھی رہے ہیں یا نہیں۔

Published: undefined

صادقہ صلاح الدین کے مطابق،''ہم اس بارے میں کافی پُرامید تھے لیکن جب نشریات دیکھی تو مایوسی ہوئی۔ جو مواد چلایا جا رہا ہے وہ خاصا بورنگ اور بے کار لگا۔ بچوں کا مواد دلچسپ ہونا چاہیے تاکہ ان کی توجہ قائم رہ سکے‘‘۔ لیکن بقول ان کے، ''معیار پر بظاہر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔‘‘

Published: undefined

معاملہ صلاحتیوں کے فقدان کا ہے، حکومتی نااہلی کا یا پھر غلط ترجیحات کا، یہ ایک لمبی بحث ہے۔ تاہم ان حالات میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے ایک حل یہ نکالا کہ صوبے بھر میں اپنے اسکولوں کی مقامی انتظامیہ کو پابند کیا کہ وہ جس حد تک ممکن ہو بچوں کو گھر بیٹھے مختلف مضامین کی ہوم ورک شیٹس پہنچائیں۔ جن اسکولوں نے اس پر عمل کیا وہاں بچوں اور والدین میں اس اقدام کو پذیرائی مل رہی ہے۔

Published: undefined

چودہ سالہ راجونتی تعلقہ ڈگری کے پسماندہ گاؤں بشیرآباد میں آٹھویں جماعت کی طالبہ ہے۔ اس کی سمارٹ فون یا انٹرنیٹ تک رسائی نہیں اس لیے جب سے اسکول جانا بند ہوا ان کا زیادہ وقت گھر پر بےکار بیٹھے گزر رہا ہے۔ اس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''مجھے دو ہفتے پہلے ہی ورک شیٹس ملیں۔ بہت اچھا لگا۔ اب روز تھوڑی بہت پڑھائی کر لیتی ہوں۔‘‘

Published: undefined

پاکستان میں کورونا کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد حکومت سندھ نے سب سے پہلے فوری طور پر اسکول بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ صوبائی حکومت کے مطابق یہ پابندی پندرہ جولائی تک جاری رہے گی اور اگر حالات قابو میں نہ آئے تو اس میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

Published: undefined

ماہرین تعلیم کے مطابق بچے جتنا جلدی سیکھتے ہیں اتنا جلدی بھول بھی جاتے ہیں اور خدشہ یہ ہے کہ بعد میں اس تعلیمی نقصان کا ازالہ کرنے لیے بہت وقت اور محنت درکار ہو گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined