سماج

خواتین کا جائیداد میں حصہ، پھر اگر مگر کیوں؟

معاشرہ عورت کا حق کھانے والا معاشرہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا قبیح فعل جس نے معاشرے کو آکٹوپس کی طرح جکڑ لیا ہے۔ خاندان جائیداد کے بٹوارے کے وقت خواتین کو حق دینے میں اگر مگر کرتے ہیں۔

خواتین کا جائیداد میں حصہ، پھر اگر مگر کیوں؟
خواتین کا جائیداد میں حصہ، پھر اگر مگر کیوں؟ 

خواتین کو حصول تعلیم، بزنس و ملازمت، سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں شمولیت، وراثت کا حصہ، رضامندی سے شادی، مطلقہ یا بیوہ کے لیے دوسری شادی کا آپشن جیسے بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ لیکن اب یہ معاشرہ عورت کا حق کھانے والا معاشرہ بن چکا ہے۔

Published: undefined

جائیداد میں خواتین کے حصے کو ہڑپ کرنا ایک قبیح فعل ہے۔ افسوس مُرُورِ اَیّام تقسیمِ میراث میں کوتاہیاں عام ہو چکی ہیں۔ کوئی فوت ہو جائے تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے تحت بندر بانٹ کر لی جاتی ہے۔ مفتیان اسلام طلاق کے موضوع پر پر تو دل کھول کر بحث کرتے ہیں جبکہ خواتین کی تقسیم وراثت پر خاموشی سادھ لی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں کثیر تعداد ایسی ہے، جو سود، رشوت، کرپشن سے کنارہ اختیار کرتی نظر آتی ہے مگر دوسری جانب جائیداد کی تقسیم میں کوتاہی کو جائز سمجھتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اعلی اعلی عہدوں پر متمکن تعلیم یافتہ لوگ بھی اس فریضہ سے غافل ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ باقاعدہ کنی کترائی جاتی ہے۔

Published: undefined

ہمارے ہاں یہ رواج عام ہو چکا ہے کہ بہنوں کو ڈرا دھمکا کر یا بلیک میل کرکے حق وراثت معاف کروا لیا جاتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ شرعی و قانونی جواز کے تحت بہنوں، بیٹیوں کا حصہ جائیداد سے نکال کر انہیں دیا جائے۔ بعدازاں وہ خود اسے ہبہ کر دیں یا معاف کر دیں یہ ان کی مرضی و مصلحت ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ خواتین کو آدھا حصہ بھی نہیں ملتا۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں حلیے بہانوں سے ان کی قرآن سے شادی کروا دی جاتی ہے تاکہ جائیداد کا مطالبہ ہی نہ ہو سکے اور لڑکی گھر ہی رہے۔ یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا شاخسانہ ہے۔

Published: undefined

اگر بات کی جائے خواتین کی تو یقین کیجیے کہ ہماری خواتین کے دل میں ڈر بیٹھا ہے کہ جیسے ہی حق میراث کا تقاضا کیا تو نتیجتاً شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اور تو اور برادری والے طرح طرح کے الزامات لگائیں گے۔ بس رنجیدہ ہو کر اس بات کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہوئے خاموش ہو جاتی ہیں۔ مشاہدے میں ہے کہ کچھ بہنیں شادی کے بعد انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہیں۔ کوئی ڈیمانڈ نہیں کرتیں۔ لیکن والدین کی وراثت سے ان کے حصے پر مقبوض بھائی پرتعیش زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

Published: undefined

بھائی خود ہی تقسیمِ جائیداد کا قصہ چھیڑتے ہیں اس میں بھی اکثریت کے دل میں مک مکا والی سیاست کا پہلو پنہاں ہوتا ہے۔ بہت ساری خواتین یہ شکایت کرتی نظر آتی ہیں کہ انہیں اپنے بھائیوں کی جانب سے حق تلفی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Published: undefined

صائمہ اور آمنہ دو بہنیں ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے والد نے 10 منزلہ مکان بطور ترکہ چھوڑا جو 20 سال قبل 80 لاکھ کا تھا۔ بہنیں خاموشی سے منتظر تھیں کہ بھائی خود ہی تقسیم کر دیں گے۔ بھائیوں نے اسے پونے چار کڑور میں بیچا لیکن بہنوں کو جائیداد سے حصہ 20 سال قبل والی مالیت کے لحاظ سے دیا گیا۔ حالانکہ عصر حاضر کی قیمت کے اعتبار سے حصہ تقسیم کیا جانا چاہیے تھا۔ بھائیوں نے بہن کی لاعلمی یا شاطر المغزی سے حصہ ہڑپ کر لیا۔

Published: undefined

عہدِ جاہلیت میں بچیوں کو اس خوف سے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا کہ کوئی ہماری جائیداد کا حصہ دار بنے گا۔ یہی لاجک آج بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ جہیز کے نام پر چند برتن دے کر رخصت کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ اب اس گھر سے ڈولی اٹھی ہے تو دوسرے گھر سے جنازہ اٹھے یعنی واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ جہیز کی وجہ سے لڑکی کو ترکہ سے محروم کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ واضح رہے کہ جہیز حق ترکہ کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ عورت کو جہیز کی صورت میں جتنا بھی مال دیا جائے اس سے حق وراثت ساقط نہیں ہوتا۔ معاشرے میں عادلانہ و متوازن نظام میراث کا سسٹم متعارف ہونا چاہیے۔ وہ معاشرہ یقیناً قابل تحسین ہے، جس میں عورت کو مالی تحفظ حاصل ہو۔ عورت کو اس کے اسٹیمپ شدہ جائز حصے سے محروم کرنے کی عجیب منطق ہے۔ افراط و تفریط کی ڈگر پر رواں معاشرہ پھر کیوں کر سنورے؟ بہنوں کا کتمان حق بام عروج پر ہے۔ نتیجتاً بھائیوں بہنوں میں نفرت کا بازار گرم رہتا ہے، جب چپقلش نزاعات تک آ جاتی ہے، تو خواتین احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔

Published: undefined

ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے سے فرسودہ رسم و رواج کو ختم کرکے ہر حق دار کو اس کا حق دلوایا جائے۔ خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیمیں ان کے حقوق کے متعلق آواز اٹھائیں۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined