سماج

جوتوں کا ایسا پہاڑ جو ہزارہا مقتول بچوں کی واحد نشانی ہے

آؤشوِٹس بِرکیناؤ کے نازی اذیتی کیمپ میں قتل کیے گئے آٹھ ہزار بچوں کے جوتے ان مقتولین کی یادگار کے طور پر رکھے گئے ہیں۔ ہولوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والے پنکسرکہتے ہیں، ’شاید یہ میری بہنوں کے جوتے ہیں۔‘

جوتوں کا ایسا پہاڑ جو ہزارہا مقتول بچوں کی واحد نشانی ہے
جوتوں کا ایسا پہاڑ جو ہزارہا مقتول بچوں کی واحد نشانی ہے 

انسانی تاریخ کے بدترین المیوں میں سے ایک یعنی ہولوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والے چند افراد نے غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے اس منظم نسل کشی مہم کا شکار بننے والے ہزاروں کم سن بچوں کے زیر استعمال رہنے والے جوتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ صرف اسی ایک نازی اذیتی کیمپ میں ہلاک کیے گئے آٹھ ہزار بچوں کے یہ جوتے بدنام زمانہ آؤشوِٹس بِرکیناؤ کے کیمپ میں ان ہلاک شدگان کی یادگار کے طور پر رکھے گئےہیں۔ ان ہزارہا جوتوں کی ایک پہاڑ جیسے ڈھیر کی شکل میں وہاں موجودگی اس کیمپ سے جڑی ہوئی ہولناک ترین یادوں میں سے ایک کا عملی ثبوت ہے۔

Published: undefined

اس وقت 92 سالہ ایری پنسکر درجنوں بار اپنی زندگی کی کہانی سنا چکے ہیں۔ لیکن جب وہ ان مقتولین کی طرف سے اپنے پیچھے چھوڑے گئے جوتوں کے بہت بڑے ڈھیر کو دیکھتےہیں، جنہوں نے نازیوں کے زیر قبضہ جنوبی پولینڈ میں آؤشوٹس برکیناؤ کے کیمپ میں داخل ہوتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری قدم اٹھائے تھے، تو پنسکر کی آنکھیں ہر بار آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔

Published: undefined

پنسکر کے اپنے والدین بھی اسی کیمپ میں قتل کیے گئے ایک ملین سے زائد قیدیوں میں شامل تھے۔ ان لاکھوں مقتولین میں پنسکر کے اپنے چھ بہن بھائی اور تقریباﹰ دو لاکھ تیس ہزار بچے بھی شامل تھے۔ پنسکر کے خاندان کو، جس میں ان کے دو بڑے بھائی بھی شامل تھے، ٹرانسلوینیا میں ان کے گاؤں سے خام تیل لانے والی ایک ریل گاڑی میں بھر کے بہت سے دیگر قیدیوں کے ساتھ پانچ دن تک کھانے اور پانی کے بغیر سفر کروا کر آؤشوٹس کے نازی اذیتی کیمپ میں پہنچایا گیا تھا۔

Published: undefined

ایک ہال نما کمرے میں ایک شیشے کے پیچھے پڑے نظر آنے والے جوتوں کے اس اونچے ڈھیر کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے پنسکر نے اپنی آنسوؤں بھری آنکھوں کے ساتھ مگر سوچتے ہوئے کہا، ''یہ انہی مقتولین کے جوتے ہیں۔ شاید یہ میری ماں اور میری بہنوں کے جوتے بھی ہیں۔‘‘

Published: undefined

جدائی نے جان بچا لی

جب نازی محافظوں نے اس کیمپ میں نئے آنے والوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا اور کچھ کو 'غسل‘ کے لیے تیار ہونے کا کہا، تو اس دوران پنسکر اپنے والدین سے الگ ہو جانے کے باعث ان جیسے انجام سے بچ گئے۔ اس دن کی سہ پہر یاد کرتے ہوئے پنسکر کی آواز رندھ گئی۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے پنسکر کا کہنا تھا کہ تب انہوں نے اس کیمپ میں اپنی آمد کے بعد وہاں طویل عرصے سے موجود ایک اور نوجوان سے پوچھا تھا کہ آیا ان کے اہل خانہ 'غسل‘ کے بعد باہر آئیں گے اور وہ دوبارہ انہیں مل سکیں گے، تو جواباﹰ اس نوجوان نے کہا تھا، ''معلوم نہیں۔ پھر اس نے قریبی چمنیوں سے اٹھتے دھوئیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: یہ ہے وہ جگہ، جہاں سے یہ لوگ باہر آتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

اس دن کے بعد پنسکر نے اپنے والدین یا اپنے خاندان کے چھوٹے ارکان کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس وقت پنسکرکی عمر 13 برس تھی۔ شاید ان کی قسمت میں یہ لکھا تھا کہ وہ ان بچوں میں سے ایک کے طور پر زندہ رہیں گے، جنہوں نے آؤشوِٹس بِرکیناؤ کے اذیتی کیمپ میں نازی مظالم کو 'ڈراؤنے خواب‘ کا سچ مچ سامنا کیا۔

Published: undefined

غم سے بھری کہانیاں

پلاسٹک کے دستانے پہن کر ایک چھوٹے سے بچے کا ایک عشروں پرانا جوتا بڑی نرمی سے اپنے ہاتھوں میں پکڑے پنسکر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہولوکاسٹ کے مقتولین اور متاثرین کی ان آخری نشانیوں کو محفوظ رکھنا کتنا ضروری ہے۔ وہ اداسی سے کہتے ہیں، ''یہ سب کچھ ان ہزارہا بچوں کی یادگار ہے۔‘‘ ان بچوں کے جوتوں کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں پنسکر اور ان کے ساتھ اسی کیمپ کے زندہ بچ جانے والے ایک اور سابقہ قیدی بوگڈان بارنیکووسکی کے ساتھ ساتھ آؤشوِٹس بِرکیناؤ میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں ایک تعلیمی فاؤنڈیشن انٹرنیشنل مارچ آف دی لیونگ، آؤشوِٹس بِرکیناؤ فاؤنڈیشن، آؤشوِٹس میموریل اور نیشلوس فاؤنڈیشن کے عہدیدار بھی موجود تھے۔ ان کا مقصد آؤشوٹس میں مارے گئے آٹھ ہزار بچوں کے جوتوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ اس منصوبے کا نام 'سول ٹو سول‘ یعنی 'روح سے جوتے کے تلوے تک‘ ہے۔

Published: undefined

اس مقصد کے لیے آؤشوٹس میموریل میں ایک خصوصی کنزرویشن لیب پہلے ہی کام کر رہی ہے۔ اس منصوبے کو فنڈز دینے والے اداروں میں سے ایک فاؤنڈیشن کے سربراہ ایتان نیشلوس کہتے ہیں کہ انسانی زندگیوں کی یہ باقیات 'معلومات کا ناقابل یقین ذخیرہ‘ ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''میں واقعی امید کرتا ہوں کہ ہم ان جوتوں کی حفاظت اور بحالی کے ذریعے ان کہانیوں کو منظر عام پر لانے کے لیے غیر معمولی کام کریں گے اور سب سے اہم بات، انہیں پوری دنیا کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے۔‘‘

Published: undefined

نیشلوس کی دادی ہولوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھیں اور انہیں اپنی دادی کی یاد کے طور پر ان جوتوں کا ایک ڈبہ وراثت میں ملا۔ اب وہ اس کو اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ دوسرے خاندانوں کی بھی ان کی اپنی تاریخ کی زیادہ سے زیادہ دریافت میں مدد کریں۔

Published: undefined

نیشلوس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے ایک جوتا دیکھا، جس کے نیچے لفظ 'سنڈریلا‘ لکھا تھا۔ تو میں نے سوچا، اس جوتے کو پہننے والی سنڈریلا کون تھی یا ان کو پہننے والے شہزادے کون تھے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ہولوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والوں کے بچوں، پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی طرف سے یہ میری نسل کا فرض ہے کہ ہم ان یادوں کی شمعیں ہمیشہ روشن رکھیں۔‘‘

Published: undefined

ایری پنسکر کا کہنا ہے، ''اگر ہم نے اس کی نمائش نہ کی کہ آؤشوٹس میں کیا ہوا تھا، اگر ہم ان شواہد کو محفوظ نہیں رکھتے، تو ایسا دوبارہ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ لیکن اس کیمپ کے عقوبت خانوں کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے پنسکر کو ڈر ہی رہتا ہے کہ یہاں انسانوں کی طرف سے دوسرے انسانوں سے ہولناک رویوں کی یادیں کسی رکاوٹ کا کام نہیں کر رہیں۔ پنسکر افسردگی سے کہتے ہیں، ''انسانی نفرت اب بھی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔‘‘

Published: undefined

یوکرین پر روسی فوجی حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پنسکر نے کہا، ''آپ کو صرف یہ دیکھنا ہے کہ یوکرین میں پوٹن کیا کر رہے ہیں۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ جب کوئی ڈکٹیٹر اقتدار میں ہو اور کوئی بھی فیصلہ کر سکتا ہو، تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ پنسکر اب تک 70 سے زائد مرتبہ آؤشوٹس واپس جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کووڈ انیس کی عالمی وبا نہ ہوتی، تو وہ اس تعداد سے بھی زیادہ مرتبہ وہاں جا چکے ہوتے۔ پنسکر کے مطابق وہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ترک نہیں کریں گے کہ مستقبل کے عالمی رہنما درست فیصلے کریں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined