سماج

جنسی جرائم، اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا

پاکستان میں جنسی عمل کی ویڈیو بنا کر یا پھر برہنہ تصاویر لے کر متاثرہ افراد، خاص طور پر خواتین کو بلیک میل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جبکہ متاثرہ افراد معاشرتی دباؤ اور خوف کی وجہ سے چپ سادھ لیتے ہیں۔

جنسی جرائم، اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا
جنسی جرائم، اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا 

پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہیں ہے، جو صرف اس طرح کے جرائم پر ریسرچ کر رہا ہو۔ پاکستان میں سن دو ہزار انیس میں پندرہ ہزار سے زائد جنسی ہراسانی کے کیس رپورٹ ہوئے، جن میں اس طرح کے بلیک میلنگ کے واقعات بھی تھے۔ لیکن ماہرین اور متاثرہ افراد کا خیال ہے کہ اس نوعیت کے سینکڑوں واقعات سماج کے خوف کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

Published: undefined

اکیس سالہ حسنین مقدر اپنے آبائی علاقے کوٹلی ستیاں کو چھوڑ کر اپنے رشتے داروں اور عزیز و اقارب سے منہ چھپا کر کہوٹہ میں رہائش پذیر ہے۔ ستمبر دو ہزار انیس سے پہلے حسنین ایک معمول کی زندگی گزار رہا تھا کہ اچانک ان کے ایک جاننے والے نے لفٹ کے بہانے انہیں اسلام آباد کے نیلور علاقے میں پہنچا دیا، جہاں تین اور جرائم پیشہ افراد نے ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور ان کا جاننے والا بھی اس میں برابر شریک رہا۔ ملزمان نے اس جنسی عمل کی ویڈیو بھی بنائی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس واقعے کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے یہ چاروں ملزمان مجھے ہر مہینے میں تقریبا تین سے چار دفعہ بلاتے اور باری باری زیادتی کرتے رہے اور کہتے کہ اگر تم نہیں آئے تو پھر وہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیں گے۔‘‘

Published: undefined

حسنین مقدر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس نے اس سال مارچ میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ان کی مزید خواہشات کی تکمیل کے لیے ان کے پاس نہیں جائے گا، ''جب میں نے ان کے پاس جانا بند کر دیا تو انہوں نے آہستہ آہستہ میری ویڈیو لیک کرنا شروع کر دیں لیکن مجھے اس سال جون میں پتا چلا۔ اس کے بعد میں پولیس اسٹیشن گیا اور میں نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔ پولیس نے دو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے لیکن بقیہ دو ملزمان کی گرفتاری ابھی تک نہیں ہو سکی۔‘‘ حسنین کے بقول وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر پولیس ان دو بقیہ ملزمان کو گرفتار کیوں نہیں کر پا رہی ہے؟

Published: undefined

سوشل میڈیا اور جنسی جرائم

حسین مقدر کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے اور موبائل فون کے استعمال کی وجہ سے ان جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے، ''قانون کی عمل داری نہیں ہے اور کوئی بھی شخص کسی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کے ویڈیو بنا لیتا ہے اور پھر ویڈیو بنانے کے بعد اسے بلیک میل کرتا ہے۔ اس بلیک میلنگ کی وجہ سے بہت سارے جنسی جرائم ہو رہے ہیں، جن کی روک تھام کرنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ معاشرے کے لئے تباہ کن ہو گا۔‘‘

Published: undefined

چائلڈ رائٹس موومنٹ کے نیشنل کوآرڈینیٹر ممتاز گوہر کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فون کے غلط استعمال سے جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسے جرائم پیشہ عناصر ہیں، جو بچوں سے یا خواتین سے دوستیاں کرتے ہیں اور پھر کسی بہانے سے ان کی ویڈیو بنا لیتے ہیں یا نازیبا فوٹو کھینچ لیتے ہیں اور پھر ایسا کرنے کے بعد ان کو بلیک میل کرتے ہیں اور جنسی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ قصور کے واقعے میں تین سو سے زیادہ کلپس ملے۔ ایبٹ آباد میں بھی اسی نوعیت کے واقعات ہوئے، اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض پر اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

سابق آئی جی سندھ افضل علی شگری کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صرف سزائیں دینے سے ہی مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ مقدمات کو چلانا چاہیے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کو بھی ریگولیٹ کرنا پڑے گا کیونکہ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے آنے سے واقعی بلیک میلنگ کا رجحان بڑھا ہے اور اس طرح کے جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘‘

Published: undefined

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی سابق رکن انیس ہارون کا کہنا ہے کہ یہ بلیک میلنگ بھی اس لئے ممکن ہوتی ہے کہ معاشرے کا رویہ ظلم کا شکار بننے والے کے ساتھ نامناسب ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''جس کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، ہمارے سماج میں اسی پر ہی الزام لگا دیا جاتا ہے اور متاثرہ فرد کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کورٹ کچہری میں جا کر بھی مقدمات التوا کا شکار رہتے ہیں اور بہت کم مقدمات پر کوئی فیصلہ ہو پاتا ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined