سماج

استنبول کی گلیاں اور خواتین کے محفوظ ہونے کا احساس

استنبول کی گلیوں اور سڑکوں پر گھومتے ہوئے میرے پندرہ سال کے بھانجے نے مجھے بتایا کہ اسے استنبول میں گھومنا اس لیے بھی محفوظ لگ رہا ہے کیونکہ یہاں سڑکوں پر مرد اور خواتین کا تناسب تقریبا ایک جتنا ہے۔

استنبول کی گلیاں اور خواتین کے محفوظ ہونے کا احساس
استنبول کی گلیاں اور خواتین کے محفوظ ہونے کا احساس 

ہم پہلی مرتبہ پاکستان سے باہر کسی دوسرے ملک میں گئے تھے اور اس تبدیلی کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ بات آزادی اور محفوظ ہونے کے احساس کی ہو رہی تھی اور وہ اپنی رائے مجھے بتا رہا تھا، ''جب میں پاکستان میں سڑک پر نکلتا ہوں تو وہاں مرد ہی مرد نظر آتے ہیں اور مجھے یہ منظر وحشت زدہ کر دیتا ہے۔ مجھے یہ چیز کبھی نارمل نہیں لگی۔ آپ خود سوچیں اگر ایک مخصوص طبقہ سڑکوں پر ہے اور آدھی آبادی گھر میں ہے تو کیا یہ آپ کی نظر میں نارمل ہے؟‘‘

Published: undefined

اس سوال کا جواب ہو بھی کیا سکتا ہے؟ یہی کہ ہماری روایات یہ ہیں کہ عورت گھر کی ذمہ داریاں سنبھالے گی اور مرد باہر کا کام کرے گا یا یہ کہ ہمارے ملک کے حفاظت فراہم کرنے والے ادارے صرف مخصوص طبقے کے لیے کام کرتے ہیں؟

Published: undefined

میری رائے کے مطابق پاکستان میں تبدیلی آ رہی ہے، شہروں میں بہت ساری خواتین سڑکوں پر نظر آتی ہیں لیکن پھر بھی ان کے تجربات مردوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ عورت ہونے کی بنیاد پر سڑکوں پر ہراساں ہونا ان کی عوامی جگہوں تک رسائی کو محدود کرتا ہے اور یہ ان کو مشکل راستوں کا ''انتخاب‘‘ کرنے اور اپنے معمولاتِ زندگی کو تبدیل کرنے کا سبب بنتا ہے۔

Published: undefined

ایک اور دن ہراساں کیے جانے کے خیال سے کئی مرتبہ تو خواتین ملازمتیں تک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں مردوں اور عورتوں کے درمیان عدم مساوات بلکل واضح ہیں اور اس سے زیادہ اس کی سڑکوں پر بلاشبہ مردوں کا اختیار ہے۔

Published: undefined

اگر میں استنبول کی ہی مثال لوں تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ایک اسٹریٹ لائٹ کے ہونے سے بھی بہت بڑا فرق پڑ سکتا ہے، گلیوں کا روشن ہونا بھی آپ کے اندر تحفظ کا احساس پیدا کر دیتا ہے۔

Published: undefined

میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عوامی مقامات پر خواتین کی حفاظت کا انحصار صرف خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق سخت قوانین، یا بہتر قانون کے نفاذ پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ خواتین کے لیے عوامی مقامات پر ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس سے خواتین خوفزدہ ہوئے بغیر گھومنے پھرنے یا اپنی ضروریات پوری کرنے کے حق کو آزادی سے استعمال کر سکیں۔ پاکستان بھر میں ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے وہ بلا خوف و خطر گھر کی دہلیز کے باہر قدم رکھ سکیں۔

Published: undefined

عام طور پر لوگ روشن اور کھلی گلیوں اور اپنے اردگرد بہت سے لوگوں کی موجودگی میں خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح اگر لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ ان کی حفاظت یقینی بنائی جا رہی ہے تو غیر محفوظ ہونے کے تاثر کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس سے خواتین کو یہ تاثر مل سکے گا کہ وہ اکیلی نہیں ہیں اور ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والا کوئی بھی شخص قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکے گا۔

Published: undefined

اگر سڑکوں کو محفوظ بنایا جائے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو قابل استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ قابل رسائی بنایا جائے تو اس سے بھی خواتین کو باہر نکل کر اپنے کام کاج خود نمٹانے کا حوصلہ ملے گا اور وہ خودکفیل ہوں گی۔

Published: undefined

اگر شہروں کے بارے میں ہماری سمجھ اور ممکنہ پالیسیز سماج میں ایک بہتر ماحول کو بڑھانے کے لیے ہیں، تو ہمیں جنس کی بنیاد پر شہری منصوبہ بندی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ ہر منصوبے میں وقت اور جگہ کا استعمال صنفی بنیاد کو نظر میں رکھتے ہوئے مرکزی ہونا چاہیے۔

Published: undefined

یورپ میں قیام پذیر میری کئی سہلیاں مجھے گاہے بگاہے بتاتی ہیں کہ وہاں کی گلیوں میں وہ خود کو کس قدر محفوظ تصور کرتی ہیں اور پاکستان کی نسبت وہاں سائیکل وغیرہ چلانا ان کے لیے کتنا آسان ہے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات میں بھی خواتین کسی بھی وقت ایک کونے سے دوسرے کونے تک جا سکتی ہیں اور انہیں کسی قسم کا کوئی خوف لاحق نہیں ہوتا۔

Published: undefined

جہاں ہمارے سیاحت سمیت ترکی کے ساتھ سیاسی و اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ترک ڈرامے بھی ہماری ٹیلی وژن اسکرینوں پر آ رہے ہیں، وہاں ہمیں اپنی خواتین کو اتنی محفوظ گلیاں اور سڑکیں فراہم کرنے کا بھی سوچنا چاہیے، جتنی استنبول کی ہیں۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined