افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے والے عسکریت پسند طالبان نے اپنی عبوری حکومت کو تشکیل دے دیا ہے۔ اس حکومت کو ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر خطوط پر استوار کرنے کی فوری ضرورت بھی خیال کی جا رہی ہے۔ طالبان کی حکومت کی کامیابی کا دار و مدار ہمسایہ ملکوں سے روابط پر بھی خیال کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
ایران بھی افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں شامل ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سےایک دریا کے پانی کی تقسیم کا ایک تنازعہ موجود ہے۔ علاقائی مبصرین کا خیال ہے کہ اس تنازعہ کا پرامن حل تہران اور طالبان کے مستقبل کے تعلقات کی اساس ہو گا۔
Published: undefined
امریکی دارالحکومت میں مقیم ایک ایرانی ماہر نیک کوثر کا خیال ہے کہ ایران اور افغان سرحد کی صورت حال میں بہتری طالبان کے اقتدار میں آنے سے بہتر نہیں ہو گی کیونکہ اس علاقے میں غربت، پانی کی کمیابی اور قحط نے عام لوگوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا تھا اور ابھی بھی یہی صورت حال پیدا ہے۔
Published: undefined
ان کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقوں میں یہ صورت حال ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ کوثر کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان پیدا پانی کی تقسیم کا تنازعہ جو کلائیمیٹ چینج کا بظاہر نتیجہ ہے، اس کی آڑ میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔
Published: undefined
ایران اور افغانستان کے درمیان پانی کا تنازعہ کوئی کل کی بات نہیں بلکہ ایک صدی سے زائد پرانا ہے۔ یہ تنازعہ دریائے ہلمند کے پانی کی تقسیم کا ہے۔ یہ دریا کابل کے قریب کوہِ ہندوکش کے ایک مقام سے نکل کر افغانستان کے کئی شہروں میں سے گزرتا ہے۔ یہ اس ملک کا سب سے بڑا دریا بھی ہے اور گیارہ سو کلو میٹر بہتا ہوا ایک جھیل ہامون میں جا کر گرتا ہے۔
Published: undefined
جھیل ہامون یوں تو ان دونوں ملکوں کی سرحد پر ہے لیکن یہ قریب ساری کی ساری ایران میں واقع ہے۔ یہ ایران کی تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ یہ زیادہ تر دریائے ہلمند کے پانی پر انحصار کرتی ہے۔ اس کا علاقے کے ماحول اور معیشت پر گہرا اثر ہے۔
Published: undefined
افغان سرحد پر ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان واقع ہے۔ اس کو غریب ترین ایرانی صوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ سیستان بلوچستان کو پانی کی شدید کمیابی کا سامنا ہے۔ ایرانی پارلیمنٹ کے مطابق ان حالات کی وجہ سے اس صوبے کی پچیس سے تیس فیصد آبادی نقل مکانی کر چکی ہے۔ پانی کی کمیابی گزشتہ بیس تیس سالوں میں گھمبیر ہو چکی ہے۔
Published: undefined
ایرانی حکومت مسلسل افغان حکمرانوں پر یہ الزام عائد کرتی آئی ہے کہ وہ اس کے پانی کے حق کا احترام کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں، جو سن 1973 کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس معاہدے کا تعلق اس پانی سے ہے جو افغانستان سے بہتا ہوا ایران میں داخل ہوتا ہے۔
Published: undefined
دوسری جانب سابقہ افغان حکومت نے ایرانی سرحد کے نزدیک دریائے ہلمند پر ایک بڑا ڈیم بھی تعمیر کر دیا ہے۔ کمال داد خان ڈیم کئی برسوں کے تعمیراتی تعطل کے بعد اب مکمل ہو گیا ہے۔ اس ڈیم کے حوالے سے تہران کا موقف ہے کہ یہ دریائے ہلمند کے پانی میں مزید کمی لائے گا اور جھیل ہامون کی سطح اور نیچے چلی جائے گی۔
Published: undefined
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے ہلمند دریا سے ماضی کے مقابلے میں زیدہ پانی جھیل کے لیے چھوڑا جا رہا ہے۔ یہ اضافی پانی طالبان کے ایما پر ہی چھوڑنے کا بھی بتایا گیا ہے۔ اس تناظر میں یہ اہم ہے کہ آیا طالبان کا یہ اقدام کم مدتی ہے یا کچھ عرصے بعد اس اضافی پانی کو روک دیا جائے گا۔
Published: undefined
فروری سن 2021 میں کابل اور تہران کی حکومتوں نے دریائے ہلمند کے پانی کی تقسیم کے ایک نظام الاوقات کو حتمی شکل دی تھی۔ اس پلان کے تحت ایک ہائیڈرو میٹر کی تنصیب ہے جو یہ واضح کرے گا کہ کتنا پانی ایرانی جھیل میں گیا ہے۔
Published: undefined
کمال داد خان ڈیم کی تعمیر کا مقصد افغانستان کے نیمروز صوبے کی قحط سالی کو ختم کرنا ہے۔ مستقبل میں یہ بھی اہم ہو گا کہ طالبان کس انداز میں پانی کا استعمال کرتے ہیں۔ ماضی میں کمال داد خان ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی ایران کو بھی ایکسپورٹ کی جاتی رہی ہے لیکن اب نمروز صوبے کی بجلی کی طلب بھی بڑھ چکی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: بشکریہ محمد تسلیم
تصویل: کانگریس میڈیا ڈپارٹمنٹ