سماج

جرمنی میں نوجوانوں میں نسل پرستانہ تشدد میں اضافہ

جرمنی میں روزانہ پانچ افراد انتہائی دائیں بازو کے حملوں کا شکار ہو رہے ہیں، جب کہ نسل پرستانہ حملوں کی شرح نوجوانوں میں مسلسل بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔

جرمنی میں نوجوانوں میں نسل پرستانہ تشدد میں اضافہ
جرمنی میں نوجوانوں میں نسل پرستانہ تشدد میں اضافہ 

جرمنی میں ایک سو پچاس طلبہ، استادوں اور بچوں کے والدین نے کوٹبُس شہر کے اسکولوں کی انتظامیہ کے دفتر کے باہر ایک مظاہرہ کیا۔ گزشتہ منگل کو جرمنی کی مشرقی سرحد پر واقع صوبے برانڈنبرگ میں اس مظاہرے کا مقصد انتہائی دائیں بازو سے جڑے تشدد کی مذمت کرنا اور اس کے خلاف آواز اٹھانا تھا۔

Published: undefined

اس مظاہرے میں شریک استاد ماکس ٹیزکے نے نعرے لگاتے ہوئے کہا، ''اسکولوں میں نسل پرستی، سیکسزم اور ہوموفوبیا ہم سب کو متاثر کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے ''یہ ہمارے معاشرے کے لیے خطرہ ہیں‘‘ کے نعرے بھی لگائے۔ ٹیزکے اور ان کی ساتھی لاؤرا نکل نے اپریل کے آخر میں اس وقت جرمن شہ سرخیوں میں جگہ بنائی تھی، جب انہوں نے ایک کھلے خط میں کوٹبُس شہر کے قریب واقع ایک پرائمری اور ہائی اسکول میں نسل پرستی سے جڑے تشدد سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے تحفظات ظاہر کیے تھے۔

Published: undefined

اس خط میں انہوں نے انتہائی دائیں بازو سے جڑے گیت اسکولوں میں گائے جانے، فرنیچر پر نازی نشانات اور اسکول کی راہ داریوں میں نسل پرستانہ گالیوں سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ اس خط میں ان استادوں کا کہنا تھا، ''چند غیرملکی نظر آنے والوں یا برداشت دکھانے والے بچوں کو اسکول میں دیگر بچوں کی جانب سے کٹاؤ، تضحیک اور تشدد کی دھمکیوں کا سامنا رہا۔‘‘

Published: undefined

اسی تناظر میں ان اساتذہ نے کہا کہ وہ اس صورت حال میں 'خاموش نہیں بیٹھ سکتے‘ اور انہوں نے طے کیا کہ انہیں اسکولوں میں اساتذہ کی مزید تربیت، علاقے میں سوشل ورکروں کی تعداد میں اضافہ اور اسکولوں میں جمہوریت کی ترویج کے مزید اقدامات کی ضرورت پر زور دینا چاہیے۔ جرمنی میں دائیں بازوں کے حملوں سے متاثرہ افراد کے کونسلنگ مراکز کی تنظیم کی سربراہ ہائیکے کلیفنر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''بدقسمتی سے یہ تنہا واقعات نہیں بلکہ ایک بہت بڑے مسئلے کا ایک چھوٹا سا اشارہ ہیں۔‘‘

Published: undefined

ان کا مزید کہنا تھا، ''سن دو ہزار بائیس میں نسل پرستانہ یا سامیت دشمن حملوں سے متاثرہ بچوں اور نوجوانوں کی تعداد دوگنی دیکھی گئی ہے۔ متاثرین کی معاونت کے مراکز کو معلوم ہوا کہ پانچ سو بیس بچے یا نوجوان ایسے حملوں میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے بتایا کہ ان کے مراکز میں دو ہزار آٹھ سو اکہتر افراد پہنچے جن میں سے اکیس سو افراد انتہائی دائیں بازو،نسل پرستی اور سامیت دشمنی سے جڑے حملوں سے متاثرہ تھے جب کہ متاثرین کی یہ تعداد دو ہزار اکیس کے مقابلے میں سات سو زائد تھی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined