سماج

جرمنی سے ملک بدری: کیا پاکستان میں احمدیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں؟

جرمنی میں پناہ کے خواہش مند جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کو ملک بدر کر کے واپس پاکستان بھیج دیے جانے کا اندیشہ ہے۔ لیکن کیا پاکستان میں ان کی زندگیاں محفوظ رہیں گی؟

جرمنی سے ملک بدری: کیا پاکستان میں احمدیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں؟
جرمنی سے ملک بدری: کیا پاکستان میں احمدیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں؟ 

احمد کا خاندان بے یقینی کی صورت حال سے دوچار ہے۔ انہیں جرمنی میں رہائش اختیار کرنے کا اجازت نامہ نہیں ملا۔ احمد اس خاندان کے سربراہ اور ایک تربیت یافتہ انجینیئر ہیں، لیکن انہیں جرمنی میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

Published: undefined

یہ خاندان مہاجرین کے لیے بنائے گئے ایک کیمپ میں مقیم ہے لیکن کسی بھی دن انہیں ملک بدر کیے جانے کا فیصلہ سامنے آ سکتا ہے۔ انہیں حال ہی میں معلوم ہوا کہ جرمنی سے پاکستانیوں کی اجتماعی ملک بدری کے لیے اگلی خصوصی پرواز سترہ مارچ کے روز روانہ ہو گی۔ انہیں خدشہ ہے کہ انہیں بھی ملک بدر کر کے پاکستان بھیج دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے آبائی وطن پاکستان میں ان کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔

Published: undefined

پاکستان میں دوسرے درجے کے شہری

Published: undefined

احمد کے خاندان کا تعلق احمدیہ مسلم کمیونٹی سے ہے۔ اس جماعت کا قیام برصغیر میں برطانوی راج کے دوران انیسویں صدی میں عمل میں آیا تھا۔ اس تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد کو احمدی کہا جاتا ہے اور وہ اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں انہیں غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے۔

Published: undefined

جرمن صوبوں تھیورنگیا اور سیکسنی میں احمدی برادری کے ترجمان محمد سلیمان ملک نے بتایا کہ پاکستان کے وفاقی آئین میں بھی احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا چکا ہے۔ سن 1974 سے پاکستان میں احمدی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ انہیں اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنے اور عبادت کے لیے دی جانے والی اذان کو بھی اذان کہنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

Published: undefined

ملک میں نافذ توہین مذہب کے سخت ترین قوانین کے تحت صرف 'السلام و علیکم‘ کہنے پر بھی احمدیوں کو سزائے موت تک سنائی جا سکتی ہے۔ بطور غیر مسلم احمدی ملک میں دوسرے درجے کے شہری بن چکے ہیں۔

Published: undefined

احمد اور ان کی اہلیہ سحر کلثوم کو بھی پاکستان میں شدید نفرت انگیز واقعات کا سامنا رہا ہے۔ کلثوم کا کہنا ہے کہ اسکول میں انہیں 'کافر‘ کہا گیا جس پر انہیں اسکول تبدیل کرنا پڑا اور پھر وہ اپنی تعلیم بھی مکمل نا کر پائیں۔

Published: undefined

کلثوم کا ایک کزن بھی قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ان کے خاندان نے اپنے آبائی گاؤں میں رہائش ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ احمد سے شادی کے بعد اس جوڑے کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہوئیں، جن کے بہتر مستقبل کی خاطر دونوں نے پاکستان سے جرمنی روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔

Published: undefined

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستانی حکام طویل عرصے سے احمدیوں کے خلاف جاری تشدد کو کم کرتے دکھاتی رہے ہیں اور کئی واقعات میں تو حکومت احمدیوں کے خلاف تشدد کی حامی بھی دکھائی دی۔ اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مقیم احمدی اقلیت خطرات سے دوچار ہے، اس لیے اس کے ارکان کو پناہ دی جانا چاہیے۔ اسی وجہ سے برطانیہ، امریکا اور ہالینڈ میں طویل عرصے سے احمدیوں کی ملک بدری پر پابندی عائد ہے۔ تاہم جرمنی میں ایسا نہیں ہے۔

Published: undefined

اس وقت جرمنی میں پناہ کے خواہش مند کم از کم 535 احمدیوں کو ممکنہ طور پر جرمنی سے ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صرف کسی خاص مذہب سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر جرمنی میں پناہ نہیں دی جا سکتی اور ہر درخواست کا انفرادی طور پر جائزہ لیے جانے کے بعد ہی پناہ دینے کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

جرمنی کی انتظامی عدالتیں بھی اپنے فیصلوں میں کئی مرتبہ یہ نشاندہی کر چکی ہیں کہ پاکستان میں کئی ایسے مقامات ہیں، جہاں احمدیوں کی جانوں کو خطرہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے ربوہ کی مثال دی جاتی ہے، جہاں احمدیوں کے بڑی تعداد آباد ہے۔

Published: undefined

تاہم سلیمان ملک اس بات سے متفق نہیں، ان کا کہنا ہے، ''پاکستان میں احمدی کسی بھی جگہ محفوظ نہیں ہیں۔ ربوہ میں بھی متواتر احمدیوں کے قتل کر دیے جانے کے واقعات پیش آتے ہیں۔‘‘ سلیمان ملک اور سیکسنی ریفیوجی کونسل کا کہنا ہے کہ جرمنی سے پاکستانیوں کی ملک بدری میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجوہات سیاسی ہیں۔

Published: undefined

'ہم کہاں جائیں‘

Published: undefined

احمد اور ان کا خاندان اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں ہے۔ سحر کلثوم نے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ''جرمن آزادی سے رہ رہے ہیں، انہیں شاید سمجھ نا آئے۔ لیکن جب کوئی پاکستان میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں آتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے دکھ بھی آتے ہیں۔ اپنا وطن اور اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ دینا آسان نہیں ہے۔ اب ہم یہاں ہیں اور ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہم یہاں نہیں رہ سکتے۔ لیکن ہم کہاں جائیں؟‘‘

Published: undefined

احمد کو خوف ہے کہ وطن واپسی پر ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ان کے ایک انکل بھی سن 2005 میں برطانیہ سے پاکستان واپس گئے تھے۔ تب ان کے گاؤں میں کسی نے افواہ پھیلا دی کہ وہ احمدی ہے اور غیر ملکی جاسوس ہے، جس کے بعد ایک مشتعل ہجوم نے انہیں قتل کر دیا تھا۔ احمد کا خاندان جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کے لیے تمام قانونی راستے اختیار کر چکا ہے لیکن تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ اب وہ صرف ملک بدری کے نوٹس کا انتظار ہی کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined