سماج

جرم و سزا کی مسلسل بدلتی ہوئی حدود، سعودی باشندے پریشان

سعودی عرب کے دو شہری اگر کسی موضوع پر اظہار رائے کریں، تو ایک کو سزا ہو جاتی ہے اور دوسرا بری۔ عرب بادشاہت میں قانونی اور غیر قانونی اور جرم و سزا کی مسلسل بدلتی ہوئی حدود پر عام شہری شدید پریشان ہیں

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا  

سعودی دارالحکومت ریاض سے اتوار اکیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف ہی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ خلیج کی اس عرب ریاست میں کئی شعبوں میں سرکاری قوانین اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں اور کسی بھی قانون کی مختلف واقعات میں تشریح اتنی متنوع ہوتی ہے کہ کچھ بھی یقین سے کہنا ممکن نہیں رہا۔

Published: undefined

اے ایف پی نے اس موضوع پر اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ سعودی عرب میں قانوناﹰ کس بات کی اجازت ہے او کس بات کی نہیں، اس بارے میں مسلسل دائیں بائیں سرکتی ہوئی سرخ لکیریں اب عام سعودی باشندوں کے لیے کافی سر درد اور بے چینی کی وجہ بنتی جا رہی ہیں۔

Published: undefined

جنس، مذہب اور سیاست پر اظہار خیال کی مثالیں ہی لے لیں۔ یہ شعبے عام طور پر سعودی عوام کے لیے آزادی اظہار کے حوالے سے بڑی حد تک ممنوعہ علاقے سمجھے جاتے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب میں اگر کسی شہری کو خود کو ہر قسم کی مشکل سے دور رکھنا ہو، تو اس کے لیے ایسے موضوعات کا احاطہ کرنے والے مسلمہ لیکن غیر تحریری سماجی ضابطوں کا احترام لازمی سمجھا جاتا ہے۔

Published: undefined

غیر واضح ہوتی جا رہی سرخ لکیریں

Published: undefined

تاہم جس رفتار سے یہ عرب ریاست سماجی اصلاحات کے عمل سے گزر رہی ہے، اور جس طرح وہاں قوم پسندی جڑیں پکڑ رہی ہے، اس میں عام لوگوں کے لیے قانونی اور غیر قانونی کے درمیان سرخ لکیر پر مسلسل نظر رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

Published: undefined

سعودی عرب میں جرم و سزا کے درمیان تفریق کی غیر واضح ہوتی جا رہی لکیروں کو سمجھنے کے لیے چند مثالیں ضروری ہیں۔ اسی مہینے جدہ میں ایک عدالت نے ایک ایسے سعودی شہری کو بری کر دیا، جس پر الزام تھا کہ اس نے سنیپ چیٹ نامی سوشل میڈیا میسجنگ سروس کے ذریعے مبینہ طور پر سعودی حکمرانوں کی تذلیل کی تھی۔ اس ملزم کے، جس کا ملکی میڈیا نے نام ظاہر نہیں کیا، بری کر دیے جانے کی خبر ایک حکومت نواز اخبار نے جلی سرخی کے ساتھ شائع کی اور لکھا، ’’آزادی اظہار کی ضمانت دے دی گئی ہے۔‘‘

Published: undefined

دوسری طرف اسی آزادی کا حق اس سعودی شہری اور ماہر تعلیم کو دینے سے انکار کر دیا گیا، جس نے اپنی ان ہم وطن خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا، جنہیں حکومت نے گزشتہ ماہ گرفتار کر لیا تھا۔ اس ماہر تعلیم نے ان مقید سعودی خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار دارالحکومت ریاض میں منعقدہ ایک کتاب میلے کے دوران کیا تھا۔

Published: undefined

ضابطہ ایک، اطلاق مختلف

Published: undefined

اس کے علاوہ جدہ میں ابھی حال ہی میں ایک ایسے کیفے کو بند کر دیا گیا، جہاں حکام کے مطابق مردوں اور خواتین مہمانوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے کے ضابطے کا احترام نہیں کیا جا رہا تھا۔ لیکن اس کیفے کی بندش ایک ایسے وقت پر عمل میں آئی، جب اسی طرح کی کئی دوسری عوامی جگہوں پر ان کے مالکان مردوں اور عورتوں کے آپس میں مل بیٹھنے کی حوصلہ افزائی کرتے دکھائی دے رہے تھے۔

Published: undefined

مزید یہ کہ گزشتہ برس سعودی عرب میں ایک ہوٹل کے ایک ملازم کو اس لیے گرفتار کر لیا گیا تھا کہ وہ بظاہر اپنی ایک خاتون ساتھی کارکن کے ساتھ ایک ویڈیو میں ناشتہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس مشترکہ ناشتے کی ویڈیو کو حکام نے ’نامناسب‘ قرار دیا تھا۔

Published: undefined

’سارا نظام ہی تضادات سے بھرا ہوا‘

Published: undefined

دنیا میں تیل برآمد کرنے والے اس سب سے بڑے ملک میں اتنے زیادہ تضادات کیوں پائے جاتے ہیں، اس بارے میں ایک سعودی سول انجینیئر نوح الغامدی نے کہا، ’’سارا نظام ہی تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی اپنی کوئی واضح اور حتمی شکل ہے ہی نہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم یہ جانتے ہی نہیں کہ کب کیا کرنا غلط اور قانون کے منافی ہے اور کب کیا کیا کرنا درست اور قانون کے مطابق۔‘‘

Published: undefined

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ سعودی عرب میں یہ صورت حال اس حوالے سے عوامی سطح پر پوچھے جانے والے سوالات کا باعث بھی بن رہی ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ملک میں جو وسیع تر اصلاحات متعارف کرا رہے ہیں، وہ کس حد تک دیرپا، سب کے لیے ایک سی اور ٹھوس شکل و صورت کی حامل ہوں گی کہ حکمرانوں کی سوچ کے مطابق وہ اس ملک کو ایک لبرل ریاست کے طور پر اکیسویں صدی کے اگلے برسوں تک لے جا سکیں۔

Published: undefined

م م / ع ت / اے ایف پی

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined