سماج

تبدیلی مذہب کا بل مسترد، عالمی برادری کو کیا پیغام جائے گا؟

 پاکستان کی اقلیتی برادری نے جبری طور پر تبدیلی مذہب کے حوالے سے بِل کو مسترد کیے جانے پر اظہار افسوس کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے ایسا مذہبی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے کیا ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس 

واضح رہے کہ اس بل کو ملکی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نے مسترد کیا تھا، جس میں وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے بھی شرکت کی تھی۔ اس بل کو پہلے اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی مسترد کر دیا تھا اور زیادہ تر اراکین کا خیال تھا کہ یہ غیر اسلامی ہے۔

Published: undefined

بل کے مندرجات

اس بل کے مسودے میں یہ تجویز تھی کہ جو شخص اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے اس کی کم از کم عمر کی حد 18 سال ہونی چاہیے اور یہ کہ اس شخص کو سیشن کورٹ کے جج کے سامنے یہ بیان دینا ہوگا کہ وہ کسی زور زبردستی کے بغیر اپنی خوشی سے مذہب تبدیل کر رہا ہے یا کر رہی ہے۔ بل میں یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ مذہب تبدیل کرنے والے شخص کو تقابل ادیان کا مطالعہ کرنے کا وقت دیا جائے۔ مذہبی جماعتوں نے اس بل کی شروع سے ہی مخالفت کی ہے اور وہ اس کو غیر اسلامی قرار دیتی ہیں۔

Published: undefined

مایوس کن

پاکستان ہندو فورم کے صدر ڈاکٹر جے پال چھابڑیا کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اس بات سے ہی انکاری ہیں کہ جبری طور پر تبدیلی مذہب کا مسئلہ ملک میں موجود ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بل کو مسترد کیے جانے پر پوری ہندو کمیونٹی اور اقلیتی برادری مایوس ہوئی ہے اور اس بات کا بھی افسوس ہے کہ ماضی میں عمران خان نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہندو برادری کو جبری تبدیلی مذہب کا سامنا ہے لیکن اب ان کے اراکین پارلیمنٹ اس بات سے انکار کر رہے ہیں، جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ کہہ رہی ہیں کہ سالانہ تقریباﹰ ایک ہزار کے قریب جبری تبدیلی مذہب کے واقعات ہوتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے اہم سوالات

ڈاکٹر جے پال کا کہنا ہے، '' اراکین پارلیمنٹ کو یہ بات سوچنی چاہیے کہ صرف نوعمر ہندو لڑکیاں ہی کیوں مذہب تبدیل کر رہی ہیں اور یہ کہ مذہب کی تبدیلی کے فوراﹰ بعد ان کی شادی کیوں ہو جاتی ہے؟ مزید برآں چالیس یا پچاس سال کی عمر کی ہندو عورتیں مذہب تبدیل کیوں نہیں کرتیں اور ہندو مردوں میں یہ رجحان کیوں نہیں ہے؟

Published: undefined

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بل کو مسترد کر کے حکومت نے صرف مذہبی قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے: ''افسوس کی بات ہے کہ نہ صرف پی ٹی آئی نے ایسا کیا بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی سندھ اسمبلی میں پہلے جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے قانون بنایا اور پھر مولویوں کے پریشر کی وجہ سے اس قانون کو روک دیا۔ سیاسی جماعتوں کے اس رویہ کی وجہ سے ملک کی اقلیتی برادری میں مایوسی پھیل گئی ہے اور وہ احساس بیگانگی کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

سیاہ دن

لاہور سے تعلق رکھنے والے اقلیتی برادری کے رکن پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ 13 اکتوبر کا دن پاکستان کے لیے ایک سیاہ ترین دن ہے جب اراکین اسمبلی نے ایک ایسے بل کو مسترد کر دیا جو پاکستان میں کم سن بچیوں کی تحفظ کی ضمانت میں معاون ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ''یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ جس بل کی تیاری میں دو سال سے زائد کا عرصہ لگا، اس بل کو حکومت نے اس لیے مسترد کر دیا کہ کچھ لوگوں نے جلسے جلوسوں کی دھمکی دی تھی اور مذہب کے سیاسی استعمال کا اشارہ دیا تھا۔ اس بل کو مسترد کیے جانے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ہمارے اراکین اسمبلی کو کم سن بچیوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی فکر نہیں بلکہ ان کو فکر ان چند عناصر کی ہے جو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

پیٹر جیکب کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی تین فیصد سے کچھ زیادہ ہے اور اگر حکومت اقلیتوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو وہ مزدوروں، کسانوں، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد کو کیسے تحفظ فراہم کریں گی۔

Published: undefined

بین الاقوامی سطح پر شرمندگی

تھرپارکر سے تعلق رکھنے والی ہندو کمیونٹی کی رہنما رادھا بھیل کا کہنا ہے کہ کہ اس بل کے مسترد کیے جانے سے بین الاقوامی برادری کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اقلیتی برادری کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے مخلص نہیں ہے: ''یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ہمارے اراکین پارلیمنٹ اس بات سے ہی انکار کر رہے ہیں کہ ملک میں جبری تبدیلی مذہب کا کوئی مسئلہ ہے۔ اگر ملک میں اقلیتی برادری کے ساتھ مسائل نہیں ہیں تو پاکستان کو ہر بین الاقوامی فورم پر شرمندگی کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ ہمارا انسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈ کیوں اتنا برا ہے؟ دنیا کیوں اور کن حقوق کے حوالے سے ہم پر تنقید کرتی ہے؟ ہمارے اراکین پارلیمنٹ کو ان سارے پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے تھا۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined