سماج

المیے سے اہم اس سے سیکھا گیا سبق

نو مئی کے واقعات سمیت جو حالات دیکھنے میں آئے، ان کا المناک ہونا تو کسی بھی شبے سے بالا تر ہے۔ تاہم پاکستانی قوم مستقبل کے لیے اس المیے سے کیا سبق سیکھتی ہے۔

المیے سے اہم اس سے سیکھا گیا سبق
المیے سے اہم اس سے سیکھا گیا سبق 

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستانی قوم ان دنوں سیاسی طور پر شدید منقسم ہے۔ یہ تقسیم گزشتہ ماہ کے آخری دنوں کے مقابلے میں مئی کی پہلی دہائی کے آخر میں بہت زیادہ تھی جب کئی شہروں میں مظاہرین مشتعل اور رویے پرتشدد ہو گئے تھے۔

Published: undefined

پاکستان میں نو مئی کے پرتشدد مظاہروں کے جو شرکاء ویڈیو فوٹیجز اور سوشل میڈیا کی مدد سے اب تک گرفتار کیے جا چکے ہیں، ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے کی تیاریاں ہو چکیں اور وزیر اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت اس عمل سے اتفاق کرتے ہوئے اس کی حمایت بھی کر چکی ہے۔

Published: undefined

اس ساری بحث سے ہٹ کر کہ جو کچھ ہوا، وہ کس نے کروایا اور کس نے ہونے دیا، کس کو گرفتار کیا گیا اور کس کو سزا سنائی جانا چاہیے، ایک لمحے کے لیے یہ سوال بھی پس پشت ڈال دیا جانا چاہیے کہ پاکستان میں مئی کے مہینے میں موجودہ حکمران سیاسی اتحاد پی ڈی ایم نے کیا کیا اور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے کیا کیا؟

Published: undefined

یہ سب اس لیے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر نئی نسل یہی سنتے ہوئے جوان ہوتی ہے: ملک اس وقت ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ جب کوئی نئی نسل جوان ہو جاتی ہے اور اس کے بعد کی نسل پیدا ہوتی ہے، تو وہ بھی یہی سنتے ہوئے ہی بڑی ہوتی ہے: ملک اس وقت ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔

Published: undefined

یہ انتہائی نازک دور کئی عشروں سے ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ اب شاید پاکستانی سیاست دانوں، میڈیا ٹاک شوز میں حالات حاضرہ پر تبصرے کرنے والوں اور تجزیہ کاروں کو حقیقت کا سامنا کرتے اور اپنے الفاظ میں ترمیم کرتے ہوئے یہ کہنے کی عادت اپنا لینا چاہیے کہ پاکستان بس کئی عشروں سے مسلسل انتہائی نازک دور سے ہی گزر رہا ہے۔

Published: undefined

اس کبھی نہ ختم ہونے والے 'انتہائی نازک دور‘ کو بھی چھوڑیے، یہ بات تو سچ ہے کہ کسی بھی انسان کا ماضی اور حال اس کے مستقبل کے تعین میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بات کسی ایک انسان کے بجائے پوری قوم کی ہو، تو آنے والے کل اور اس میں ملنے والی کامیابیوں اور ناکامیوں میں گزرے ہوئے کل اور آج کے دن کا مشترکہ حصہ اور بھی فیصلہ کن ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی فرد اپنی غلطی کا اعتراف اور اس کا تدارک بہت جلد کر دینے کی کوشش کر سکتا ہے۔ یہی اعتراف اور تدارک اگر قومیں کریں تو اس میں برسوں لگتے ہیں۔

Published: undefined

پاکستان میں گزشتہ ماہ کے حالات و واقعات کے حوالے سے بطور قوم غلطیوں کے اعتراف اور تدارک کا دورانیہ کم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تعصب اور انا پرستی کی عینک نہ کوئی فرد لگائے اور نہ ہی کوئی چھوٹا یا بڑا ریاستی ادارہ۔ انتقام کی سوچ کا سب سے برا پہلو یہ ہے کہ جب تک انتقام لیا نہ جائے، انتقام کا خواہش مند اپنے ہی جذبات کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ جب انتقام لے لیا جائے تو وہ جل چکا ہوتا ہے، جس سے انتقام لیا جاتا ہے۔

Published: undefined

اسی لیے قومیں خود کو اپنے ہی اندر سے لگنے والے زخموں کا علاج انتقام کے ساتھ کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں۔ اگر ایسے کسی انتقامی عمل کو علاج سمجھ بھی لیا جائے تو وہ محض ایک جھوٹی اور جزوقتی تسلی ہی ثابت ہوتا ہے۔ ایسے زخموں کے مستقل علاج کے لیے تحمل مزاجی سے نرم رویے اور تعمیری سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔

Published: undefined

اسی لیے پاکستان میں گزشتہ ماہ نو مئی کے واقعات سمیت جو حالات دیکھنے میں آئے، ان کا المناک ہونا تو کسی بھی شبے سے بالا تر ہے۔ تاہم ایک بات اس المیے سے بھی زیادہ اہم ہے اور رہے گی۔ وہ یہ کہ پاکستانی قوم مستقبل کے لیے اس المیے سے کیا سبق سیکھتی ہے۔

Published: undefined

گزرے ہوئے کل نے آنے والے کل کو ماضی سے بہتر بنانے میں مدد نہ کی، تو آنے والا کل بھی گزرے ہوئے کل جیسا ہی ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ المناک حالات سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ یوں المیے کے دوہرائے جانے کا خدشہ ہمیشہ رہے گا۔ ایسا ہونا نہیں چاہیے لیکن پاکستان میں زیادہ تر ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچا جانا چاہیے کہ آج تک زیادہ تر اگر ایسا ہی سب کچھ ہوتا آیا ہے، تو کیا لازمی ہے کہ ایسا ہی سب کچھ پھر ایک بار دیکھنے میں آئے۔

Published: undefined

پاکستان اور پاکستانیوں کو، جن میں عوام، سیاست دان، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سبھی شامل ہیں، مل کر اب اتنا تو کم از کم کر ہی لینا چاہپے کہ آج پیدا ہونے والے پاکستانی بچے جب بڑے ہوں تو انہیں یہ نہ سننا پڑے: ملک اس وقت ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined