سماج

ایک دن پاکستان بالکل ٹھیک ہو جائے گا

ہم ایسے تو ہرگز نہیں تھے۔ ہم تو ساٹھ کے عشرے تک اقتصادی و سماجی اور ثقافتی ترقی کے اشاریوں میں نو آزاد ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں سال بہ سال تمام بنیادی شعبوں میں ایک مثالیہ بن کے اوپر جا رہے تھے۔

ایک دن پاکستان بالکل ٹھیک ہو جائے گا
ایک دن پاکستان بالکل ٹھیک ہو جائے گا 

کسی شعبے میں بھارت سے کچھ نیچے اور کہیں کچھ اوپر۔ ایک بھارت ہی تو تھا، جس سے بزعمِ خود ہمارا مقابلہ تھا۔

Published: undefined

مگر اب تو پھسلتے ہی جا رہے ہیں۔ بھارت تو کم بخت مارا جانے کدھر چلا گیا۔ اب تو ہم افغانستان اور نیپال سے ہی خود کو بہتر ثابت کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کا نام بھی تب ہی لیتے ہیں، جب کمرے میں کوئی اور نہ ہو۔ ریکارڈ ہولڈر ہم آج بھی ہیں۔کوئی بھی عالمی انڈیکس اٹھا کے دیکھ لیں کہیں نہ کہیں کسی نچلی رینکنگ میں کسی بھی صحارا پار افریقی ملک کے آگے پیچھے مل جائیں گے۔

Published: undefined

مثلاً انسانی ترقی کے عالمی معیار کی انڈیکس میں ہم ایک سو بانوے ممالک کی فہرست میں کئی برس سے ایک سو ساٹھ تا باسٹھ کے درمیان جھول رہے ہیں۔ جبکہ بھارت اس فہرست میں ایک سو بتیس، بنگلہ دیش ایک سو انتیس اور سری لنکا اقتصادی دیوالیہ پن کی چوکھٹ چومنے کے بعد بھی تہترویں نمبر پر ہے۔

Published: undefined

خوشی بس اتنی ہے کہ انسانی ترقی کے معیار کی بابت خطے میں ہم سے بھی بری حالت صرف افغانستان کی ہے۔ ہم اس پر بھی خوش ہیں کہ جنوبی ایشیا میں ہماری اوسط عمر کم ازکم افغانستان سے زیادہ ہے۔ ہم اس پر بھی شکر ادا کر سکتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اگر ہماری آبادی کی شرحِ افزائش بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور ایران سے زیادہ ہے تو افغانستان سے پھر بھی کم ہے۔ ہم اس پر بھی خود کو تسلی دے سکتے ہیں کہ دنیا میں اگر ہمارا پاسپورٹ ویزا فری سفر کی ہینلے فہرست میں چوتھا سب سے برا پاسپورٹ ہے تو کیا ہوا۔ ہم سے بھی نیچے شام ، عراق اور افغانستان کے پاسپورٹ ہیں۔

Published: undefined

اب یہ مت پوچھیے گا کہ مذکورہ تینوں ممالک کو تو خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت نے برباد کر دیا اور ان کی آدھی سے زیادہ آبادی دربدر ہو گئی مگر ہمارا پاسپورٹ کیوں آخر مسلسل تین برس سے چوتھے نچلے ترین پائیدان پر جھول رہا ہے جبکہ ہم تو ایٹمی طاقت ہیں اور افغانستان، عراق اور شام کے مقابلے میں ہمارے امن و امان و معیشت اور ریاستی استحکام کے حالات کہیں بہتر ہیں۔

Published: undefined

تو پھر ہمارے پاسپورٹ کو کوئی ٹکے سیر بھی کیوں نہیں پوچھ رہا اور کیسا لگتا ہے جب ہینلیز کی طاقت ور پاسپورٹ کی فہرست میں صومالیہ ، شمالی کوریا، ایران اور فلسطینی اتھارٹی کا پاسپورٹ ہم سے بہتر رینکنگ میں دکھائی دیتا ہے۔ اور پھر کیسا لگتا ہے یہ سن کر کہ انیس سو تراسی تک اسی سبز پاسپورٹ پر جنوبی افریقہ، اسرائیل اور سوویت یونین سمیت کیمونسٹ بلاک کے سوا ہر ملک میں پاکستانیوں کے لئے آن آرائیول ویزہ تھا۔

Published: undefined

آج صورت یوں ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر صرف دس ممالک میں ویزہ کے بغیر داخل ہوا جا سکتا ہے اور ان میں سے بھی ایک آدھ چھوڑ کے باقی ممالک یا جزیرے وہ ہیں، جن کے نام تک عام پاکستانی نہیں جانتا۔ مثلاً ونوتو کا نام کتنے پاکستانیوں نے سنا ہو گا حالانکہ وہاں ہم جب چاہیں بنا ویزہ جا سکتے ہیں۔ یہ مقام ہم نے بہت محنت سے حاصل کیا ہے۔ بالکل ایسے جیسے سن انیس اسی کے عشرے تک پاکستان عالمی ہاکی کا بادشاہ اور کرکٹ کی پانچ چوٹی کی ٹیموں میں شامل تھا۔ اسکواش پر پاکستان کی حکمرانی تھی۔

Published: undefined

کھیل کے میدان میں سوائے کرکٹ گزشتہ بیس برس کے دوران جتنی بھی کامیابیاں ہیں وہ سب کی سب انفرادی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ جب کوئی ٹیم یا کھلاڑی اپنے خرچے پر جیت جاتا ہے یا کوئی چوٹی سر کر لیتا ہے تو حکمران اس کے ساتھ کھڑے ہو کر فوٹو ضرور کھنچوا لیتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے پی آئی اے کا شمار انیس سو ساٹھ کے عشرے تک سروس کے اعتبار سے دس معیاری عالمی فضائی کمپنیوں میں تھا۔ آج پی آئی اے سفید ہاتھی ہے۔ اس کے آسمانوں پر خلیجی فضائی کمپنیوں کی حکمرانی ہے۔

Published: undefined

پی آئی اے کے اکثر ریٹائرڈ افسر گھوم پھر کے وہی کہانی ایک سو چونتیسویں بار سنائیں گے کہ دبئی سے پہلے کراچی گیٹ وے آف ایشیا کہلاتا تھا۔ یہاں دن بھر میں تینتالیس ایئرلائنز کے طیارے اترتے تھے۔کئی ایئرلائنز اپنے طیاروں کی اوور ہالنگ اور ٹیکنیکل دیکھ بھال ہم سے کرواتی تھیں۔ مالٹا، یمن، زمبابوے اور یو اے ای کی الامارات کا ابتدائی ڈھانچہ پی آئی اے نے قائم کر کے دیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ مگر آج تو بس دھڑکا لگا رہتا ہے کہ پی آئی اے کا کوئی بھی طیارہ غیر معیاری سروس یا واجبات کی عدم ادائیگی کی پاداش میں مشرقِ بعید یا یورپ کے کسی ہوائی اڈے پر عارضی ضبط نہ ہو جائے۔

Published: undefined

جی ہاں یہ وہی عروس البلاد کراچی ہے، جو ساٹھ کے عشرے تک اپنی صفائی ستھرائی اور امن و امان کے سبب ایشیا کے دس بہترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کی سڑکوں اور ساحل پر یورپی باشندے بکثرت ٹہلتے تھے۔ اور یہ وہی کراچی ہے جو آج برطانوی جریدے اکانومسٹ کی تازہ ترین فہرست میں دنیا کے ایک سو تہتر ناقابل ِ رہائش شہروں میں چوتھا بدترین شہر ہے۔ اس سے نیچے صرف لاگوس، الجئیرز ، تریپولی اور دمشق ہیں۔ یہ اعزاز کم وبیش گزشتہ چار برس سے برقرار ہے۔

Published: undefined

دو ہزار انیس میں بھی کراچی ایک سو چالیس ناقابلِ رہائش شہروں کی فہرست میں ایک سو چھتیسویں نمبر پر تھا۔ دو ہزار بائیس میں یہ چھٹا بدترین شہر تھا۔ دو ہزار تئیس میں یہ چھٹے سے دوبارہ چوتھے نمبر پر آ گیا۔ جبکہ چار ماہ پہلے فضائی آلودگی کی جانچ کرنے والے سوئس سروے میں لاہور دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرار دیا گیا۔ لاہور کے بعد فضائی آلودگی کے اعتبار سے بدترین شہروں میں چینی شہر ہوتان اور پھر بھارت کا شہر بھیونڈی اور پھر دلی ہے۔

Published: undefined

میں نے بہت کوشش کی کہ ان تمام منفی انڈیکیٹرز کی ذمہ داری پاکستان دشمن عالمی و علاقائی قوتوں بشمول آئی ایم ایف پر ڈال سکوں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس پر ڈالوں؟ مگر یہ تو طے ہے کہ جو کچھ بھی برا ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے۔ اس میں سے کسی کے ذمہ دار نہ ہم تھے، ہیں، نہ ہوں گے۔ ہم تو بس ایک بات جانتے ہیں۔ انشااللہ ایک روز سب خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ گورننس بھی، معیشت بھی، سماج بھی، ادارے بھی، امیج بھی اور پاسپورٹ بھی۔ ہم تو دیکھ ہی رہے ہیں۔ بس آپ بھی دیکھتے چلے جائیں۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو اور قومی آواز کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا دونوں کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined