سماج

تم بھی سب جیسے نکلے بھائی

یوں تو شفافیت اور احتساب کے نعرے پاکستان کی ہر سیاسی جماعت بلند کرتی آئی ہے مگر جب بات عمل کی ہو تو یہی نعرے ان کے گلے کی ہڈی بن جاتے ہیں۔

گڈ گورننس کے نعرے سے چمکتی سیاسی دکان
گڈ گورننس کے نعرے سے چمکتی سیاسی دکان 

پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 19 اے ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری یا نجی ادارے سے، جسے سرکار سے مالی یا کوئی اور مدد مل رہی ہو، کسی بھی طرح کی معلومات مانگ سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت سرکاری ادارہ چودہ دن کے اندر وہ معلومات شہری کو دینے کا پابند ہے۔ دوسری صورت میں شہری چودہ دن بعد اپنے صوبے کے یا وفاق کے کمیشن میں اپیل دائر کرتا ہے اور یوں معلومات تک رسائی کے سفر کو عام شہری کے لیے ممکن بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں معلومات تک رسائی کا قانون اس وقت پاکستان کے دارالحکومت کے علاوہ تین صوبوں، پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخواہ میں فعال ہے جبکہ بلوچستان میں اب تک کمیشن ہی قائم نہیں ہو سکا۔

Published: undefined

خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت سے 2019 میں وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے استعمال میں رہنے والے ہیلی کاپٹر کی تفصیلات طلب کیں گئیں۔ معلومات تک رسائی کے قانون کے ذریعے ملنے والی معلومات نے عوام میں بے چینی اس لیے پھیلا دی کہ باتوں میں سادگی کا درس دینے والی یہ جماعت خود حکومتی وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہی تھی۔ یہ معلومات دینے کے بعد خیبر پختونخواہ حکومت کو احساس ہوا کہ معلومات تک رسائی اگر اتنی آسان رہی تو ان کی عیاشیوں کی عمر مختصر ہوتی جائے گی اور پھر اسی اسمبلی نے اس قانون میں ترمیم کر کے اسے اپنی تین تہائی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منظور بھی کر لیا۔ یوں پی ٹی آئی حکومت نے اپنے ہی سادگی اور گڈ گورننس کے بیانیے کو خیبر پختونخواہ میں ابدی نیند سلا دیا۔ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جن سے عوام لاعلم ہے اسی لیے احتساب اور شفافیت کا یہ منجن آج بھی اسی بھرپور انداز سے بیچا جا رہا ہے۔

Published: undefined

بات صرف خیبر پختونخواہ اسمبلی تک محدود نہی، رعونت کا یہ رویہ پنجاب اسمبلی کی جانب سے بھی تب دیکھنے کو ملا جب میں نے پنجاب اسمبلی میں اپنے علاقے کے سات ایم پی ایز کی کارکردگی رپورٹ مانگی۔ پنجاب اسمبلی کے پی ای او برہم ہو گئے۔ پہلے تو یہی کہا گیا کہ ہم ایسی معلومات دینے کے پابند نہیں پھر پنجاب کمیشن کی طرف سے سختی پر موقف اختیار کیا کہ تمام تفصیلات پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹس پر موجود ہیں مگر ہم مخصوص انفارمیشن ان دستاویزات میں سے ڈھونڈ کر نہیں نکال سکتے۔ جس کے بعد چیف کمشنر محبوب قادر شاہ نے انہیں پابند کیا کہ تمام معلومات کو ترتیب وار اپلوڈ کیا جائے اور میری مطلوبہ معلومات بھی مجھے دی جائیں۔ سوال بھی یہی ہے کہ جن امیدواروں کو عام شہری ووٹ دے کر اسمبلی بھیجتا ہے تاکہ وہ ہمارے علاقے کی ترقی و فلاح کے لیے کام کریں وہی امیدوار اسمبلی میں بیٹھ کر خود کو قانون سے ماورا کیوں سمجھنے لگ جاتے ہیں؟

Published: undefined

اس وقت ایوان بالا یعنی سینٹ میں بھی اسی قانون میں ترمیم کے لیے پی ٹی آئی کے سینٹر ولید اقبال نے ایک ترمیم بل پیش کر رکھا ہے۔ اس بل کو پیش کرنے کی وجوہات میں 2019 میں سینٹ کو بھیجا جانے والا ایک سوالانامہ ہے جس میں سینٹ کی کل آسامیاں، خالی آسامیوں کی تعداد جیسی بنیادی معلومات مانگی گئی تھیں لیکن سینٹ سیکرٹریٹ کو یہ بات اپنی شان کے خلاف لگی اور یوں اس قانون اور سینٹ سیکرٹریٹ کے درمیان تنازعے نے جنم لیا۔ سینٹ نے یہ معلومات نہ دینے کے لیے تمام سرکاری حربے استعمال کیے، سینٹ سیکرٹریٹ کے ایک عملے نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سینٹ سیکرٹریٹ کا خیال ہے کہ اگر یوں ہم معلومات فراہم کرنے لگ گئے تو ہر شہری پھر ہر معاملے پر سوال اٹھائے گا۔

Published: undefined

سینٹ سیکرٹریٹ نے اسی سوالنامے کی اپیل میں چیئرمین سینٹ سے ایک خط بھی لکھوایا جس میں چیئرمین سینٹ نے سینٹ کے تمام ریکارڈ کو کلاسیفائیڈ قرار دیتے ہوئے اسے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت فراہمی سے مستثنی قرار دے دیا تھا۔

Published: undefined

گزشتہ سال مارچ میں سینٹ سے پھر سال 2018 کے بعد سے ہونے والی بھرتیوں کا ریکارڈ مانگا گیا۔ حسب روایت اس کا بھی جواب نہیں ملا۔ اس معاملے کو بھی اب سال ہونے کو ہے لیکن سینٹ جواب نہ دینے کے لیے مختلف سرکاری حربے استعمال کررہا ہے مگر ٹائم پاس کرنے کے لیے سینٹ سیکرٹریٹ نے سادے کاغذ پر کچھ معلومات لکھ کر دیں، ان کاغذات پر نہ تو کسی کے سائن ہیں اور نہ سینٹ کا لیٹر پیڈ استعمال ہوا۔

Published: undefined

اب تک یہ لڑائی صرف سینٹ لڑ رہا تھا لیکن گزشتہ سال جون میں جب یہ خبر سامنے آئی کہ سابق اسپیکر اسد قیصر نے اپنے سالے کو مبینہ طور پر ڈیپوٹیشن پر نیشنل اسمبلی میں تعینات کرایا اور پھر اسے قوائد کے خلاف ترقی بھی دی تو میں نے نیشنل اسمبلی سے 2018 کے بعد نیشنل اسمبلی میں ڈیپوٹیشن پر ہونے والی تقرریوں اور ان کی ترقی کی تفصیلات طلب کیں۔ نیشنل اسمبلی نے یہ معلومات فراہم نہیں کیں جس پر پاکستان انفارمیشن کمیشن نے نیشنل اسمبلی کے خلاف فیصلہ جاری کرتے ہوئے معلومات فراہم کرنے کو کہا۔ نیشنل اسمبلی نے بھی خود کو اسی صف میں لا کھڑا کیا جب اس سے ممبران کی جانب سے جمع کرائی گئیں تحریک استحقاق کی تفصیل طلب کی گئی۔ جس کا جواب آج تک نہیں مل سکا۔

Published: undefined

یوں تو تحریک انصاف کی جانب سے سسٹم کو کرپشن سے پاک کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں اور ماضی میں خیبر پختونخواہ میں عمران خان خود اس قانون کی آگاہی اور اس پر عمل درآمد میں ذاتی دلچسپی لیتے رہے ہیں تو پھر آخر اب ایسا کیا ہوگیا کہ تحریک انصاف کے سینیٹر ہی اس قانون کے پیچھے پڑ گئے۔

Published: undefined

اراکین پارلیمان نےکیوں اپنے ہی بنائے ہوئے قانون سے خود کو آزاد کرنے کے لیے معلومات تک رسائی کے قانون میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے؟ اراکین اسمبلی خود کو مقدس گائے ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ قانون باقی سب سرکاری اداروں پر لاگو ہو لیکن ان سے کوئی بھی شہری اس قانون کے تحت کوئی سوال نہ پوچھ سکے۔

Published: undefined

پاکستان کا آئین عام شہری کو بہت سے حقوق دیتا ہے اور اداروں کو بادشاہت نہیں جواب دہ ہونے کا پابند بناتا ہے۔ پاکستان میں انفارمیشن کمشنز بنانے کی شرط بھی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی شرائط میں سے ایک شرط تھی مگر اس قانون کو یہ سیاسی رہنما جس طرح اپنے ذاتی مفادات کے لیے ترمیم در ترمیم کر کے بدل رہے ہیں اس طرح ٹرانسپیرنسی کے عمل کو ممکن بنانا ایک خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined