ابھی حال ہی میں 60 سال کے عرصے کے دوران پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ چین کی آبادی میں کمی واقع ہوئی۔ مستقبل کے حوالے سے لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق یہ کمی اگلے 30 برس تک تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی اور نتیجتاﹰچین کو اب ایک آبادیاتی بحران کا سامنا ہے۔ چناچہ سکڑتی آبادی کے مسئلے سے نبرد آزما چینی حکومت نے معاشی سبسڈیز سمیت ایسی مراعات کا اعلان کیا ہے، جن کا مقصد خاندان بڑھانے کی حوصلہ افزائی اور شرح پیدائش میں اضافہ ہے۔ لیکن یہ اقدام چینی نوجوانوں، خصوصاﹰ خواتین کو قائل کرنے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے۔
Published: undefined
اس بارے میں بات کرتے ہوئے متعدد چینی نوجوانوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کا یہی رویہ شادی اور خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ان کی بدلتی سوچ کا عکاس بھی ہے۔ چین کے شہر شنگھائی میں رہائش پذیر 25 سالہ ایما لی کہتی ہیں کہ اکثر چینی نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے اور زندگی بہت دباؤ کا شکار ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسے میں اولاد ہونے سے پریشانیوں میں اضافہ ہی ہو گا، ’’اسی لیے ہم میں سے کئی (افراد) نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے خاندانوں کی آخری نسل ہوں گے۔‘‘ ایما نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میری اپنے متعدد دوستوں سے شادی اور اولاد سے متعلق بات ہوئی ہے اور ان میں سے کئی خاندانی منصوبہ بندی کی روایتی طریقے اپنانے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔‘‘
Published: undefined
دیگر چینی نوجوانوں کے خیالات بھی ایما اور ان کے دوستوں کی سوچ سے مختلف نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین کا دباؤ والا (stressful) طرز زندگی اور روزمرہ کی پریشانیاں انہیں خاندان کی تشکیل سے روکتی ہیں۔ بیجنگ کی 27 سالہ سنتھیا لیو کا کہنا ہے، ’’کام کے طویل اوقات، روزگار کی پریشانی اور مہنگائی کے اس دور میں کم تنخواہوں میں گزارا کرنے کے ساتھ ساتھ اولاد کی پرورش کرنا ناممکن ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’کتابوں، فلموں اور ویڈیو گیمز پر حکومت کی سخت سینسر شپ کی وجہ سے ہمیں یہ نہیں پتا کہ ہم اپنے بچوں کے لیے اچھا بچپن کیسے یقینی بنائیں۔ ہمارے ہمدردی کے جذبے اور ذمے داری کے احساس نے ہمیں کافی حد تک قائل کر لیا ہے کہ ہم اس طرح کی دنیا میں مزید نئی زندگیوں کا اضافہ نہ کریں۔‘‘
Published: undefined
امریکہ کی یونیورسٹی آف میشی گن سے وابستہ معاشرتی علوم کی پروفیسر یون ژو کے مطابق چینی لیبر مارکیٹ میں موجود صنفی تفریق اور خواتین سے ماں بننے اور اس کردار کو نبھانے کی بے تحاشا توقعات بھی چینی باشندوں کے شادی اور اولاد پیدا نہ کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں چینی نوجوان خواتین کا ایک کامیاب کیریئر بنانے پر زیادہ زور ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ کووڈ انیس کے دوران لاک ڈاؤن اور حکام کی جانب سے عوام کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کرنے کی پالیسی بھی چینی باشندوں کے مستقبل کی حوالے سے ان کے نقطہ نظر پر خاطر خواہ اثر اندازی ہوئی ہے۔
چینی شہر تیانجن کے رہنے والے 26 سالہ ایڈم وینگ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں بارہا لاک ڈاؤن لگنے کی وجہ سے چینی باشندوں کی جمع پونجی ختم ہوئی اور وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب کارخانے اور ڈیلیوری پلیٹ فارمز اپنے ملازمین کو بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہیں اور کووڈ انیس کے دوران چین میں بیروزگاری کی بلند شرح کے باعث زیادہ تر نوجوان سرکاری ملازمت کی تگ ودو میں ہیں۔
ایڈم کہتے ہیں کہ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے باعث چین میں نوجوانوں کے لیے گزر بسر مشکل ہو گیا ہے، ’’ہم میں سے بہت سوں کے پاس شادی یا بچوں کے بارے میں سوچنے کی (ذہنی) صلاحیت ہی نہیں بچی۔ اور ایسا اس لیے ہےکہ ہم معیاری طرز زندگی بھی برقرار نہیں رکھ سکتے۔‘‘
Published: undefined
ان حالات اور آبادی کے بحران کے پیش نظر چینی حکام نے شادی اور اولاد پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف مراعات کا اعلان کیا ہے۔ مثلاﹰ کچھ شہروں میں تین بچوں والے خاندان اب حکومتی سبسڈی کے اہل ہیں اور کچھ شہروں میں لوگوں کو گھر خریدنے کے لیے سبسڈیز دی جا رہی ہیں۔
لیکن یہ ابھی بھی مکمل طور پر واضح نہیں کہ آیا یہ اقدام خاندان بڑھانےکے حوالے سے موثر ثابت ہو گا یا نہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined