چینی روایتی ادویات سازی ایک مشکل، پیچیدہ اور قدیمی سلسلہ ہے۔ اس طریقہٴ علاج میں کئی دواؤں کی تیاری میں ایسے جانوروں کے گوشت کا استعمال لازمی طور پر کیا جاتا ہے، جو بتدریج انسانوں کے شکار کی وجہ سے اب نایاب ہونے لگے ہیں۔
Published: undefined
چینی روایتی ادویات یا ٹی سی ایم کی صنعت کئی اربوں ڈالر پر محیط ہے۔ اب یہ ادویات دنیا کے کئی ممالک کو بھی ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ مغربی سائنس اس روایتی چینی ادویات کی مسلمہ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی بلکہ کئی بنیادی سوال بھی اٹھاتی ہے۔
Published: undefined
چین کے سرکاری اخبار چائنا ڈیلی کے مطابق سن 2020 میں چینی روایتی ادویات سازی یا ٹی سی ایم کا حجم چار سو چونتیس ارب ڈالر کے مساوی تھا۔ اس میں آکُوپنکچر کا طریقہ ٴعلاج بھی شامل ہے، جو اب کئی مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکی اور افریقی ملکوں میں بھی مستعمل ہو چکا ہے۔
Published: undefined
چینی ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ ان کی روایتی دوائیں حقیقت میں انسان کے اندر توانائی کے بہاؤ کو توازن فراہم کرتی ہیں۔ اس روایتی طب میں انسانی جسم کی اس توانائی کو '‘چی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ چینی طب کے ماہرین کے مطابق 'چی‘ میں عدم توازن ہی سے انسانوں میں بیماریاں جنم لیتی ہیں اور یہ علالت کا سب سے بڑا اور اہم سبب ہے۔
Published: undefined
اب چین کے خصوصی انتظامی علاقے ہانگ کانگ کے اسکول کی خاتون ٹیچر کیلا وان کو لیجیے، وہ ایک ٹیچر ہوتے ہوئے چینی روایتی طب پر مکمل یقین رکھتی ہیں۔
Published: undefined
شربت تیار کرنے کے بعد کیلا وان اس کا ایک قطرہ ناک میں ڈال کر اپنے اندر کھینچ لیتی ہیں۔ کیلا وان کا کہنا ہے کہ یہ دوا افزائش خون کے ساتھ ساتھ جسمانی نشو و نما کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ ستائیس سالہ وان کا مزید کہنا ہے کہ وہ اسے ماہواری کے دوران بھی باقاعدگی سے استعمال کرتی ہیں۔ خاتون ٹیچر کو دوا تیار کرنے کے لیے یہ اجزاء ان کے روایتی چینی طریقہٴ علاج کا طبیب یا ڈاکٹر فراہم کرتا ہے۔
Published: undefined
چین کی قدیمی دواؤں میں جانوروں کے اجزاء کا باقاعدہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسی دواؤں کا حجم بارہ فیصد کے قریب ہے، جو جانوروں سے حاصل کی جاتی ہیں۔ جن جانوروں کے اجزا استعمال ہوتے ہیں ان میں بیشتر کا تعلق اب نایاب جانوروں سے ہے، جیسا کہ پینگولین کے اسکیل یا چاننے، گینڈے کے سینگ، شیر کی ہڈیاں و پنجہ اور ریچھ کا پِتہ وغیرہ نمایاں ہیں۔
Published: undefined
چینی و امریکی حکومتوں نے ان جانوروں کے شکار اور ان کے اجزاء سے تیار کی جانے والی دواؤں کو ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ جانوروں کے ان اجزاء کی انٹرنیشنل تجارت پر بھی مکمل پابندی عائد ہے۔ اقوام متحدہ نے گینڈے کے سینگ کی بین الاقوامی تجارت کا حجم دو سو تیس ملین ڈالر بتایا ہے۔
Published: undefined
چینی روایتی ادویات کی قدیمی صنعت کو محفوظ رکھنے کے لیے بیجنگ حکومت کئی اہم سائنسی اقدامات کا جائزہ لے رہی ہے۔ ان میں لیبارٹری میں ایسے اجزا کی مصنوعی انداز میں تیاری کو اہم خیال کیا جا رہا ہے۔ اب اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ آیا مصنوعی انداز میں تیار کردہ مختلف جانوروں کے اجزاء کے استعمال سے دوائیں بھی مثبت اثرات کی حامل ہوں گی؟
Published: undefined
اس مقصد کے لیے لائف سائنسز کے ماہرین زندہ جانوروں کے جسم میں سے ایک معمولی مقدار حاصل کر کے ان کے اندر موجود اسٹیم سیلز کی افزائش لیبارٹری میں کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس افزائش کے دوران اجزاء کے سینتھیٹک خلیوں کی نمو کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
ایک بائیو میڈیکل سائنسدان کینیتھ لی کا کہنا ہے کہ کسی بھی بافت یا ٹِشُو کے خلیوں کی تجربہ گاہ میں افزائش ممکن ہے اور اس عمل سے کوئی ہڈی اور عضلاتی خلیے، گینڈے کے سینگ یا شیر کا پنجہ بھی تیار کرنا ممکن ہے۔
Published: undefined
کینیتھ لی ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں اور عنقریب ملازمت سے ریٹائر ہونے والے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد برطانوی علاقے اسکاٹ لینڈ میں اپنی لیبارٹری قائم کر کے مصنوعی گوشت کی پیدوار کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
Published: undefined
دنیا میں پروفیسر کینیتھ لی لیبارٹریوں میں گوشت تیار کرنے میں مصروف اکلوتے سائنس دان نہیں ہیں بلکہ کئی ممالک کی تجربہ گاہوں میں بہت سارے بائیو میڈیکل سائنسدان اس مناسبت سے سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز
تصویر بشکریہ نواب علی اختر