سماج

رائف بداوی تو رہا ہوگئے لیکن قید دیگر صحافیوں کے لیے بھی آواز بلند کرنا ہوگی

سعودی بلاگر رائف بداوی کو سزا مکمل کرنے کے بعد جمعے کے روز جیل سے رہا کردیا گیا۔ لیکن ان کی آزادی پر قدغن نیز آزاد پریس کے خلاف کارروائیوں کے مدنظر عالمی برادری کو خاموش نہیں رہنا چاہئے۔

رائف بداوی تو رہا ہوگئے لیکن قید دیگر صحافیوں کے لیے بھی آواز بلند کرنا ہوگی
رائف بداوی تو رہا ہوگئے لیکن قید دیگر صحافیوں کے لیے بھی آواز بلند کرنا ہوگی 

تقریبا ً ایک دہائی تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے بعد سعودی حکام نے بالآخر رائف بداوی کو قید سے رہا کردیا۔ بداوی ایک بلاگر ہیں۔ وہ اپنی تحریروں میں اور آن لائن فورمز پرسیکولر اور لبرل قدروں کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ انہیں جون 2012 میں گرفتار کرلیا گیا تھا اور سزائے موت سنائی گئی۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت اور دباؤ کے بعد یہ سزا دس برس قید اور 1000 کوڑوں کے علاوہ دو لاکھ 66 ہزار امریکی ڈالر جرمانے کی سزا میں تبدیل کردی گئی۔ انہیں سزا کے حصے کے طور پر پچاس کوڑے لگائے بھی گئے تاہم عالمی دباو نے مزید کوڑوں سے بچالیا۔

Published: undefined

بداوی جن دنوں جیل میں تھے، اس دوران سعودی عرب میں دو متضاد رجحانات دیکھنے کو ملے۔ مملکت کے عملاً حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان کی ماتحتی میں سعودی عرب دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے سب سے بڑے جیلوں میں سے ایک اور نگرانی اور جاسوسی کے ٹیکنالوجی کا مرکز بن گیا۔ سن 2018 میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس جمال خاشقجی کے ہولناک قتل پر ولی عہد پر بھی انگلیاں اٹھائی گئیں۔

Published: undefined

لیکن اس دوران ولی عہد امریکی حکومت اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے براہ راست سزا سے بچ نکلنے میں نہ صرف کامیاب رہے بلکہ دنیا نے محمد بن سلمان کی ماتحتی میں سعودی عرب کو عالمی اسٹیج پر ایک اہم کردار کے طورپر بھی تسلیم کرلیا۔

Published: undefined

بداوی کی گرفتاری کے مضمرات

بداوی کی گرفتاری اور سزا کا فیصلہ محمد بن سلمان کے اقتدار میں عروج سے کئی برس پہلے کی بات ہے۔ ان کی تحریریں اس بات کی مثال ہیں دنیا کے سب سے زیادہ سینسر کیے جانے والے ملکوں میں سے ایک میں آزاد صحافت کس طرح برقرار رہی۔

Published: undefined

بداوی نے سن 2006 میں آن لائن مباحثوں کا آغاز کیا جہاں سعودی شہری سیاست او رمذہب پر اپنی آراء کا اظہار کرتے تھے۔ لیکن 2008 تک وہ کم از کم ایک مرتبہ حراست میں لیے جاچکے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنا کام جاری رکھا جو بعد میں 'فری سعودی لبرلز' نیٹ ورک کی شکل میں سامنے آیا،جس کے رجسٹرڈ افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ اگلے چند برسوں کے دوران ایک طرف تو وہ اس فورم کو چلاتے رہے دوسری طرف مقامی اور علاقائی اخبارات میں سیکولرزم اور لبرل ازم کی وکالت میں کالم لکھتے رہے۔ بداوی کی تحریریں سعودی سماج میں مذہب اور لبرل ازم کے کردار پر بدلتے ہوئے نظریات کی عکاسی کرتی ہیں۔

Published: undefined

سعودی عرب کی ایک عدالت نے بداوی کی تحریروں پر انہیں سات برس قید اور 600 کوڑے لگانے کی سزا سنائی۔ جب انہوں نے اس سزا کے خلاف اپیل کی تو اپریل 2014 میں قید کی مدت بڑھا کر دس برس اور کوڑوں کی تعداد ایک ہزار کردی گئی۔ اس کے علاوہ دس لاکھ سعودی ریال کا جرمانہ اور قید سے رہائی کے بعد دس برس تک سفر پر پابندی بھی عائد کردی گئی۔

Published: undefined

سعودی حکام نے جنوری 2015 میں بداوی کو 50 کوڑے لگائے بھی لیکن ان کی خراب صحت اور بین الاقوامی تنقید کے مدنظر بقیہ کوڑوں کی سزا موخر کردی۔

Published: undefined

کوڑے مارنے کی سزا کو موخر کرنے سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ سعودی حکام کوعالمی رائے عامہ کا احساس ہے۔ لیکن جب بداوی کی بہن ثمر بداوی کی سن 2019 میں گرفتاری کی کینیڈا نے نکتہ چینی کی تو سعودی حکومت نے کینیڈیائی سفیر کو ملک سے نکال دیا۔ اس کا مقصد ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی نکتہ چینی کرنے والوں کو تنبیہ کرنا اور یہ بتانا بھی تھا کہ سعودی حکام کسی تنقید کے حوالے سے کتنے حساس ہیں۔

Published: undefined

رائف بداوی آزاد کردیے گئے لیکن سعودی حکام کی طرف سے ان پر اور دیگر لوگوں پر سفری پابندیاں عائد رہیں گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابھی مزید ایک دہائی تک اپنے اہل خانہ سے نہیں مل پائیں گے۔ رائف بداوی کی اہلیہ انصاف حیدر اپنے تین بچوں کے ساتھ کینیڈا میں سیاسی پناہ گزین کے طورپر زندگی گزار رہی ہیں۔

Published: undefined

دلچسپ بات یہ ہے کہ متعدد دیگر صحافیوں کو برسوں سے قید میں رکھنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کے باوجود سعودی عرب حکومت کو امریکہ اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی فوجی حمایت حاصل ہے۔ بداوی کو کوڑے مارنے کی پہلے دور کی سزا کے خلاف بین الاقوامی سطح پر جو ردعمل دیکھنے کو ملا وہ اب کم ہوتا جارہا ہے جبکہ صحافیوں کے خلاف سعودی حکام کی زیادتیاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔

Published: undefined

مسلسل بین الاقوامی دباؤ کی ضرورت

بین الاقوامی برادری کو چاہئے کہ سعودی حکام پر اپنا دباؤ برقرار رکھے تاکہ جیل میں بند دیگر قیدیوں کو بھی رہائی نصیب ہوسکے، رہا ہونے والوں پر عائد سخت پابندیاں ختم ہوسکیں، سنسرشپ اور نگرانی کے نظام کا خاتمہ ہو اور خاشقجی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے۔

Published: undefined

بداوی کو پچاس کوڑے مارا جانا جتنا ہولناک تھا اتنی ہی یہ بات خوش آئند کہ بین الاقوامی دباو کی وجہ سے ان کی زندگی کا چراغ بجھنے سے بچ گیا۔ لیکن بداوی کی رہائی کے بعد ایسا نہیں سمجھنا چاہئے کہ سعودی عرب میں سب کچھ معمول پر آگیا ہے۔ بلکہ ان کی رہائی کے بعد بین الاقوامی دباو میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

گزشتہ تین برسوں کے دوران سعودی عرب میں صحافیوں کی گرفتاریوں اور خاشقجی کے قتل پراحتساب کا فقدان بین الاقوامی برادری کی مایوس کن خاموشی کو اجاگر کرتی ہے۔ اب جب کہ بداوی جیل سے باہر آگئے ہیں،دنیا بھر کی حکومتوں کو ایک بار پھر متحد ہوکر ان دیگر صحافیوں کے حق میں بھی آواز بلند کرنی چاہئے جو اب بھی جیلوں میں بند ہیں۔ جب بداوی کو سچ بولنے پر کوئی خوف نہیں تھا تو اظہار رائے کی آزادی کا دعوی کرنے والے ملکوں کو بھی خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔

(جسٹن شیلاڈ صحافیوں کی عالمی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' سے وابستہ سینیئر ریسرچر ہیں)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined