سماج

’مسلمان اور یہودی دونوں دائیں بازو کے شدت پسندوں کا ہدف‘

جرمن شہر ہالے میں ایک یہودی عبادت گاہ پر حملے سے جرمنی میں بڑھتی دائیں بازو کی شدت پسندی ظاہر ہوئی ہے اور مسلمانوں میں بھی اس کی وجہ سے خوف نظر آ رہا ہے

دائیں بازو کی شدت پسندی اور مسلمانوں کا خوف
دائیں بازو کی شدت پسندی اور مسلمانوں کا خوف 

ہالے شہر میں ایک سیناگوگ پر ہوئے حملے پر جرمن مسلمان دھچکے کا شکار ہو گئے اور انہوں نے جرمنی میں بسنے والی یہودی برادری کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے ارکان بھی جارحانہ معاشرتی رویوں کی شکایت کر رہے ہیں۔

Published: undefined

ہالے شہر میں سیناگوگ پر حملے کی کوشش کوئی اچھوتا واقعہ نہیں ہے۔ جرمن مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے چیئرمین ایمن مزیک کے مطابق ایسے واقعے کے خدشات طویل عرصے سے ظاہر کیے جا رہے تھے۔ ’’یہ حملہ جو ہالے شہر میں یہودی برادری کے خلاف کیا گیا، اس شہر کی مسلم برداری پر بھی ہو سکتا تھا۔ مسلمان اور یہودی دونوں دائیں بازو کے شدت پسندوں کا ہدف ہیں۔‘‘

Published: undefined

ایمن مزیک نے حملے کا نشانہ بننے والے یہودی مرکز کا دورہ کیا اور یہودیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں برادریوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیے۔

Published: undefined

جرمنی میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں اور مسلم مرکزی کونسل کے ارکان پر حملوں کے واقعات بھی ماضی میں پیش آتے رہے ہیں۔ میزک کے مطابق، ''ہالے شہر میں مسلم برادری حالیہ کچھ برسوں میں کئی حملوں کا نشانہ رہی ہے۔ کہیں مساجد کے شیشے توڑ دیے جاتے ہیں کہیں نازی نعرے لکھے ہوتے ہیں اور پچھلے دو حملوں میں تو مسلمانوں پر ایئررائفل سے فائرنگ کی کوشش بھی کی گئی۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی میں امن کے ماحول میں ایک خاص تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے اور صرف یہودی ہی نہیں مسلمان بھی ان بدلتے حالات کو محسوس کر رہے ہیں۔

Published: undefined

میزک کا کہنا ہے، ‘‘ایسا ماحول بن چکا ہے کہ جارح عناصر نہ صرف کھل کر اقلیتوں کے خلاف بات کر سکتے ہیں بلکہ حملے بھی کر سکتے ہیں۔ ماحول ایسا ہی لگ رہا ہے، جیسے انتہائی دائیں بازو کے دہشت گرد، جیسے کرائسٹ چرچ، اپنے کتابچوں میں لکھ رہے ہیں، اپنے گیتوں میں یہ جارحانہ جملے دوہرا رہے ہیں۔ یعنی تباہ کن بات ہے کہ وہ اعلانیہ طور پر یہ نفرت انگیز باتیں کر رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

جرمن وزارت داخلہ کے مطابق سن 2018ء میں 910 ایسے واقعات پیش آئے جو اسلاموفوبیا سے جڑے تھے۔ گو کہ سن 2017 کے مقابلے میں یہ تعداد کم ہے تاہم اب بھی صورت حال کوئی بہت بہتر نہیں۔ سن 2017 میں ایسے ایک ہزار پچھتر واقعات ریکارڈ کیے گئے تھے۔ جرمن وزارت داخلہ کا تاہم کہنا ہے کہ مسلمانوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں اسلاموفوبیو سے جڑے حملوں میں 40 افراد زخمی ہوئے، یہ تعداد سن 2017 میں 32 تھی۔

Published: undefined

مسلم کونسل آف مسلمز کا دوسری جانب کہنا ہے کہ اسلاموفوبیا سے جڑے بہت سے حملے رپورٹ بھی نہیں ہوتے، کیوں کہ ایسی واقعات میں متاثرہ مسلمان اپنے آپ کو سامنے لانے سے ہچکچاتے ہیں۔

Published: undefined

یونیورسٹی آف ایرفرٹ کے پروفیسر اور اسلامک اسکالر کائی حافظ کے مطابق جرمنی میں پچاس فیصد سے زائد باشندوں میں اسلام کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں، جب کہ تھورنگیا اور سیکسنی جیسے صوبوں میں یہ تعداد ستر فیصد کے قریب ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined