سماج

پاکستان: مساجد کی بے حرمتی اس وقت نہیں ہوتی جب وہاں بچوں کے ساتھ غلط کام کئے جاتے ہیں۔

رحيم يار خان کے قريب ہندوؤں کے مندر کو مرمت کے بعد ہندو کميونٹی کو لوٹا ديا گيا ہے۔ اقليتی برادريوں کے حقوق کے ليے سرگرم کارکنان کا کہنا ہے کہ پاکستان ميں صورتحال بھارت اور چين سے بہتر ہے۔

اقليتوں نے قيام پاکستان ميں کردار ادا کيا، ليکن انہيں کيا ملا؟
اقليتوں نے قيام پاکستان ميں کردار ادا کيا، ليکن انہيں کيا ملا؟ 

پاکستانی صوبہ پنجاب ميں ضلع رحيم يار خان کے گاؤں بھونگ ميں حملے کی زد ميں آنے والے مندر کو مرمت کے بعد مقامی ہندو برادری کو لوٹا ديا گيا ہے۔ ضلعی انتظاميہ کے اہلکار خرم شہزاد نے پير کو خبر رساں اداروں کو اس پيش رفت کی تصديق کرتے ہوئے بتايا کہ ہندو برادری کے ارکان جلد ہی اپنے مندر ميں عبادت شروع کر ديں گے۔

Published: undefined

گزشتہ ہفتے علاقے کے مشتعل افراد نے مذکورہ مندر پر حملہ کرتے ہوئے اس کے دروازے کو نذر آتش کر ديا تھا اور مندر کے اندر مورتيوں کو بھی نقصان پہنچايا گيا تھا۔ مقامی افراد کا الزام تھا کہ ايک ہندو لڑکے نے ايک مدرسے کی بے حرمتی کی تھی۔ بچے کو بعد ازاں حراست ميں لے ليا گيا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے مدرسے کی لائبريری ميں قالين پر پيشاب کيا تھا، جہاں مذہبی کتابيں بھی تھيں۔ مقامی لوگوں کے بقول يوں يہ بچہ توہين مذہب کا مرتکب ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد حکام نے مندر پر حملے کے شبے ميں درجنوں افراد کو گرفتار کر ليا تھا۔

Published: undefined

مساجد کی بے حرمتی اس وقت نہيں ہوتی جب وہاں بچوں کے ساتھ جنسی افعال کيے جاتے ہيں؟

ملک ميں اقليتی برادريوں کے حقوق کے ليے سرگرم غير سرکاری تنظيم 'پاک سينٹر فار لا اينڈ جسٹس‘ کے ڈائريکٹر نپوليئن قيوم نے ڈی ڈبليو اردو سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ اس قدر کم مدت ميں مندر کی مرمت کر کے اسے واپس کر ديا جانا يقيناً مثبت پيش رفت ہے مگر سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ايسا ہوا ہی کيوں؟

Published: undefined

انہوں نے کہا، ''بچے نے کچھ غلط نہيں کيا۔ وہ وہاں صرف پانی پينے گيا تھا جس پر مولوی صاحب نے اسے بلا کر ڈانٹا اور مارا پيٹا اور اسی کے نتيجے ميں اس کا پيشاب نکل گيا۔‘‘ نپوليئن قيوم نے سوال اٹھايا کہ جب مساجد اور مدرسوں ميں بچے کے ساتھ زيادتی ہوتی ہے، کيا اس وقت مقدس مقامات کی توہين نہيں ہوتی؟

Published: undefined

تاريخی پس منظر اور اقليتی برادريوں کی صورتحال

ڈی ڈبليو اردو سے بات چيت ميں انہوں نے کہا، ''ہم آج بھی قائد اعظم کے پاکستان کی تلاش ميں ہيں؟ قائد اعظم تو خود تين مرتبہ مسلم ليگ سے عليحدہ ہو گئے تھے۔ پھر يہ نعرہ بلند کيا گيا تھا کہ 'مسلم ہو تو مسلم ليگ ميں آؤ۔‘ جون سن 1947 ميں مسيحی برادری نے باؤنڈری کميشن ميں شامل ہو کر يہ درخواست دی تھی کہ مسيحی اکثريت والے علاقوں کو مسلم علاقوں کے ساتھ شامل کيا جائے۔ ليکن يہ ہماری بد قسمتی ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے يہاں اقليتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہيں اختيار کيا گيا۔ گوجرا بستی جلی، شانتی نگر کو نذر آتش کيا گيا، قصور جلا۔ حکومت دوبارہ بربادی کے بعد تعمير کر ديتی ہے ليکن سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ بنانے کے بعد ايسے واقعات دوبارہ کيوں ہوتے ہيں۔‘‘

Published: undefined

'پاک سينٹر فار لا اينڈ جسٹس‘ کے سربراہ کے مطابق اگر پاکستان ميں اقليتوں کی صورت حال کا موازنہ بھارت اور چين سے کيا جائے، تو معاملات کافی بہتر ہيں مگر بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ ان کے بقول پاکستان ميں مذہب کی بنياد پر تعصب کيا جاتا ہے، جو کہ غلط ہے۔ مذہب اور رياست کو عليحدہ رکھا جانا چاہيے۔

Published: undefined

نپوليئن قيوم نے کہا، ''اگر ميں ہسپتال چلا جاؤں، تو چاہے میرے دل ميں تکليف ہو اور مجھے فوری طبی امداد درکار ہو، ميری پرچی سب سے آخر ميں رکھ دی جائے گی اور ہر کسی کے بعد ميرا نمبر آئے گا۔ صرف اس ليے کيونکہ ميں مسيحی ہوں۔‘‘

Published: undefined

'پاک سينٹر فار لا اينڈ جسٹس‘ کے سربراہ نپوليئن قيوم کے مطابق لوگوں ميں آگہی کی کمی عدم برداشت کی وجہ بنتی ہے۔ ان کی تجويز ہی کہ ملک کے تمام مذہبی مقامات چاہے وہ مساجد ہوں، گرجا گھر ہوں مندر ہوں يا گردوارے، انہيں لوگوں ميں آگاہی پھيلانے کے ليے بھی استعمال کيا جائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined